تحریر: رانا اعجاز حسین
ہر سال گیارہ جولائی کا دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں World Population Day آبادی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 1989ء میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی گورننگ کونسل نے تجویز دی کہ دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پیدا ہونے والے مسائل سے متعلق شعور بیدار کرنے اور ترقیاتی منصوبوں میں ان مسائل کو حل کرنے کے تناظر میں ہر سال 11 جولائی کو عالمی یوم آبادی منایا جائے۔
اس دن کو منانے کا مقصد بڑھتی آبادی کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں، خوراک، انفرا اسٹرکچر اور دیگر مسائل کے حل سے متعلق شعور بیدار کرنا ہے۔ آبادی میں اضافے کے باعث شہروں میں تعلیم، صحت جیسی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی ساڑے اٹھارہ کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ پاکستان میں وسائل کی کمی کی وجہ سے آبادی کا پچاس فیصد غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارے پر مجبور ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت عالمی آبادی سات ارب چالیس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ عالمی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا کی آبادی کا پچاس فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق آج دنیا بھر میں 1.8 بلین نوجوان دنیا کے مستقبل کو بہتر بنانے کے عمل میں شریک ہیں، لیکن اس کے باوجود بہت بڑی تعداد میں نوجوان غربت، عدم مساوات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث اپنی ذاتی اور اجتماعی صلاحتیوں سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں۔
چین اور ہندوستان صرف دو ملکوں کی آبادی دنیا کی آبادی کا 37 فیصد ہے۔ اسی طرح بر اعظم ایشیاء کی آبادی 4 ارب 20 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اس طرح ایشیا کی آبادی پوری دنیا کی آبادی کا ساٹھ فیصد بنتی ہے ۔ اور دنیا کی آبادی کا صرف 7% (امریکہ) پوری دنیا پر اپنے ڈالر کی طاقت کے ذریعے حکومت کر رہا ہے اور انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ تباہ کن ہتھیاروں کو استعمال کر کے کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانی آبادی کو تلف کر سکتا ہے۔ جبکہ انسانی دنیا کو ایٹمی طاقت سے زیادہ ایسی طاقت کی ضرورت ہے جو کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانی زندگیاں بچانے کی اہلیت کا مظاہرہ کر سکے۔ دور حاضر میں ضرورت ایسی سپر پاور کی ہے جو زیادہ سے زیادہ انسانوں کی زندگیوں کو صحت، تعلیم، روزگار کی سہولتیں فراہم کرنے کی سوچ اور طاقت رکھے۔ اور قدرت کے تمام مدفون خزانوں کو فلاح انسانی کے لئے استعمال میں لانے کی جستجو کرے۔ یہاں ان حقائق کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ عالمی سرمایہ داری نظام نے گزشتہ دو صدیوں کے دوران دنیا کے دس امیر ترین لوگوں کے قبضے میں اتنی زیادہ دولت اکٹھی کر دی ہے کہ جس کے مناسب اورموزوں استعمال سے پوری دنیا کی غربت، جہالت، بے روزگاری اور بیماریوں کا علاج کیا جا سکتا تھا۔
آبادی میں اضافے کے ساتھ ہی خالق کائنات اور رازق کائنات نے ایسے اسباب پیدا کر دیے ہیں کہ کوئی انسان اور ذی روح بھوکا پیاسا نہ رہے۔ اب یہ انسانی معاشروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ وسائل کی تقسیم اور انصاف کی فراہمی میںبہترین پلاننگ کریں۔ ماضی میں مرغی صرف امیر لوگ ہی تناول کیا کرتے تھے، دودھ کی بہتات سے شہر خالی تھے، تیل اور گھی ڈھونڈنے سے ملتے تھے، مشروبات صرف اشرافیہ کے ہاں دستیاب تھے، چائے محض مریض کو ہی میسر ہوا کرتی تھی، چینی تو ایک خواب تھی اور لوگ شکر یا گڑ پر ہی اکتفا کرتے تھے۔ آبادی میں اضافے کے باعث ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ چیزیں مزید قلت وتعطل میں چلی جاتیں اور ناپید ہو جاتیں لیکن اسکے برعکس آج یہ تمام اشیاء پہلے سے کہیں زیادہ کثرت اور وافر مقدار میں شہروں اور دوردراز علاقوں کی چھوٹی چھوٹی دکانوں تک میں فراہم ہیں۔ جبکہ آبادی میں اضافے سے وسائل اور سہولیات کی تقسیم میں حکومتوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، اور اس تقسیم میں بڑے پیمانے پر خامیاں رہ جائیں تو غربت و مفلسی جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ ترقی پذیر ممالک میں غیر مستحکم سیاسی نظاموں کی بنا ہ پر آبادی سے متعلق معاملات کو ترجیح نہیں دی جاتی اور کچھ ممالک میں آبادی پر کنٹرول کے لئے پالیسی سازی میں روایتی اور مذہبی نظریات آڑے آتے ہیں۔ ایسے میں تعلیم اور طبی سہولتوں میں سرمایہ کاری ہی بہترین حل ثابت ہو سکتا ہے۔
جہاں تک پاکستان کی تیزی سے بڑھتی آبادی کی بات ہے ، 1951 ء کی پہلی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی ( بنگلہ دیش سابقہ مشرقی پاکستان کو نکال کر) 3 کروڑ 37 لاکھ40 ہزار تھی جو 1998 ء کی پانچویں مردم شماری کے مطابق بڑھ کر 13کروڑ 23 لاکھ 52 ہزار ہو چکی تھی۔ یوں 47 سال میں پاکستان کی آبادی میں مجموعی طور پر 292 فیصد اضافہ ہوا۔ اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سٹڈی کے مطابق2016 ء تک پاکستان کی کل آ بادی 18 کروڑ 60لاکھ کو مدنظر رکھیں تو 1951 ء سے 2016 ء تک پاکستان کی کل آبادی میں 443 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ کسی بھی ملک و قوم کے افراد کی درست تعداد کے تعین کے بغیر وہاں ترقی و خوشحالی کے لئے بہترین منصوبہ بندی ممکن نہیںہے۔
بدقسمتی سے مملکت خداداد پاکستان میں 18 سال سے مردم شماری ہی نہیں کروائی گئی ہے جس پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کو مردم شماری نہ کرانے کا از خود نوٹس لینا پڑا۔ کیس کی مذید سماعت کے لئے سیکرٹری شماریات اور اٹارنی جنرل کو 15 جولائی 2016 ء کو طلب کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا ہے کہ 18 سال سے مردم شماری کیوں نہیں کرائی جا رہی، تاخیر کی کیا وجہ ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ملک میں فوری طور پر مردو شماری کروائے تاکہ افراد کی درست تعداد ان ترقی کی پلاننگ اور وسائل کی تقسیم میں ممدون ثابت ہوسکے۔
تحریر: رانا اعجاز حسین
ای میل : ra03009230033@gmail.com
رابطہ نمبر:03009230033