تحریر : شاہ بانو میر
جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے
آج کی چمک دمک اور دنیاوی آسائشات سے بھری اس دنیا نے مذہب کو بھی اداروں کی سازشوں حکومتی جماعتوں کے تعاون سے مشروط کر دیا یہی وجہ ہے نادانستگی میں سادگی میں کم علمی میں جو غلطی جنید جمشید سے سرزد ہوئی اس کو حد درجہ ظالمانہ انداز سے پھیلایا جا رہا ہے٬ نہ اس کی عاجزی سے مانگی گئی معافی ان کے لئے اہمیت کی حامل ہے اور نہ اس کی دل سے کی گئی توبہ٬ نجانے یہ کس اسلام کے پیرو کار ہیں جو معاف کردینے کا علم بھول بیٹھے٬ قرآن دل میں اترے تو انسان اپنی ذات کی پہچان کھو بیٹھتا ہے اتنا ڈر لگتا ہے ٬ آج میں دیکھتی ہوں کہ کہ سب کے سب اسلام کے حاکمِ اعلیٰ بنے بیٹھے ہیں۔
معاف کرنے کو نظر انداز کرنے کو کوئی تیار نہیں ٬ معاف کیجیۓ گا آپ سب قرآن پاک کو از سر نو دوبارہ غور سے پڑہیں اور اللہ پے اس کا معاملہ چھوڑ دیں٬ توبہ وہ کر چکا اب بندہ جانے یا اس کا خُدا ٬ تجزیہ کرنے کے بعد مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ آج جنید جمشید کا معاملہ صرف اس لئے اچھالا جا رہا ہے کہ وہ ایک مخصوص جماعت کے ساتھ وابستہ ہے٬ حالانکہ اُس جماعت کی تبلیغی دینی خدمات کو دنیا مانتی ہے٬ ان کا عاجزانہ اندازِ تخاطب اور بنی نوع انسان کے لئے خدمات بھٹکے ہوئے جدت پسندوں کو اللہ کے قریب کرنے کا احسن قدم ہر اہل فکر کیلیۓ باعثِ ستائش ہے ـ اس دینی جماعت سے خار کھانے والے ان کو کافر کہنے والے اس وقت جنید جمشید کی غلطی کو دینی تناظر کی بجائے ذاتی حسد کی بنا پر جانچ رہے ہیں اور توبہ کا اصول دانستہ فراموش کر بیٹھے ہیں۔
لیکن آج جنید جمشید موردِ الزام اس لیے ٹھہرا کہ وہ ایک سیاسی جماعت جس کا نعرہ ہی انصاف کا حصول ہے وہ اس کا ساتھ دے رہا ہےـ لہٰذا وہ مذہبی محاذ آرائی کے ساتھ ساتھ سیاسی محاذ آرائی کابھی شکار ہو رہا ہے٬ حکومتِ وقت متحارب سیاسی جماعت کی طرح اس کی کردار کشی پر بھی اربوں روپیہ پانی پر بہا سکتی ہے کیونکہ ٌمسئلہ اس وقت دینی حمیت کا کم اور سیاسی جماعت کے ایک مہرے کو عبرت کا نشانہ بنانے کا زیادہ ہے اس میں وہ پوری طاقت صرف کر دیں گے کہ کسی طرح توہینِ رسالت ثابت کر کے سیاسی پارٹی کو ملک دشمن کے ساتھ ساتھ اسلام دشمن بھی ڈکلئیر کیا جا سکے٬ اس کے بعد جنید جمشید کی ایک اور کمزوری ایک نجی ٹی وی کے ساتھ وابستہ ہونا جو ٹی وی چینل کسی اور ٹی وی چینل کو اسی قسم کی ایک غلطی پے عوام میں بے اثر کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔
اب بدنام ہونے والا چینل کیسے اس سنہری موقعہ کو ہاتھ سے جانے دے٬ وہ بڑھا چڑھا کر حکومتی تعاون سے اس بات کو اچھال اچھال کر آسمان تک لے جا رہے ہیں٬٬ خوفِ خُدا تو جیسے ختم ہو کر رہ گیا ہے٬ دنیا ساری جیسے بے حسی کا سنگ تراشی کا مجسمہ بن کر جامد ہو چکی ہے٬ مذہبی روایات کی پاسداری کرنے والے کیا میرے ان اہم نکات سے انحراف کر سکتے ہیں؟ کیا جنید جمشید کیلئے مذہبی انتہاء پسند شکنجہ اس لیے تنگ نہیں کر رہے کہ وہ جنید جمشید کو ہر ادارے کی دوسرے ادارے سے دشمنی کا مزا چکھانا چاہتے ہیں؟ خواہ وہ مذہبی جماعت ہو خواہ وہ سیاسی جماعت ہو خواہ وہ سوشل میڈیا ہو؟ اہل علم سے کہنا ہے خُدارا عام پاکستانی نابلد ہے ان باتوں سے ایسا ظلم کیا جا رہا ہے جس کا ادراک عام مسلمان کو نہیں٬ توبہ کا بار بار تقاضہ کرنے والا ربّ پورے قرآن میں اپنے بندوں کو کہہ رہا ہے کہ میرا دروازہ کھلا ہے اور زمینی خُدا قہر و جبر کا پیکر بنے ہر صورت المناک انجام تک پہنچانے کے خواہاں ہیں۔
سورة ہود کا ترجمہ پڑھنا آج ان سب کے لئے انتہأئی ضروری ہو گیا اللہ کرے ان عالم دین کو اللہ کا بار بار دیا ہوا سبق یاد آجائے کہ بدلہ لینا چاہیے لیکن معاف کر دینا اللہ ربّ العزت کو بہت پسند ہے جنید جمشید کو سیاسی تعصب مذہبی تعصب نشریاتی تعصب کی زد میں لا کر پاکستان کے لئے مزید ایک تباہی کا باب نہ کھولیں ٬ کوئی اور دنیاوی آسائشات سے نفس کو ہٹا کر راہِ خُدا میں لگ نہ سکے ٬ کوئی سبق تو اگلی نسلوں کے لئے ایسا چھوڑ دیں جو فخر کر سکیں کہ ہاں ہمارے اسلاف میں تحمل برداشت معاف کر دینے کا وصف موجود تھا۔
ذرا سوچیں اصلاح یا آج جنید جمشید کے ساتھ اجتماعی طور پے جو کروایا جا رہا ہے اس کو دیکھ کر یقینی طور اب اسے سب یہی کہہ رہے ہوں گے کہ کیوں تائب ہوئے گناہوں سے کیوں چھوڑی یہ خوبصورت بناوٹی دنیا تم جیسے اچھےّ انسانوں کے ساتھ وہی سلوک ہو گا جو ماضی بعید میں ہر اچھے انسان کے ساتھ کیا گیا ٬ ہر جابر فاسق حکمران نے منافقت جھوٹ کی تاجپوشی شان سے کی اور ہر حق سچ کہنے والے کو تختہ دار دیا ٬ آج بھی وہی جابرانہ باطل اک نظام ہے جہاں انصاف کی داد رسی نا ممکن ہے٬ آپ بھی ان سے اچھے کی انصاف کی امید نہ رکھیں ہر محب وطن پاکستانی کی طرح بھی اس سڑے گلے غلیظ نظام پر
رو جنید جمشید رو۔
تحریر : شاہ بانو میر