تحریر : ابنِ نیاز
جنید جمشید پر عرفان لدھا نامی نوجوان نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر حملہ کیا۔ حملے کی وجہ وہاں کسی نے پوچھی تو کہنے لگا کہ اس نے نعوذ باللہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کی ہے۔ کمال کی بات ہے کہ جب بقول اس کے ”گستاخی ”کی گئی تھی تب یہ عرفان لدھا کدھر تھا۔ اس وقت کیا اس کے دل میں عشق رسول جاگزیں نہیں تھا۔ شاید نہیں، کہ یہ اس وقت کسی ایسے کام میں مصروف ہو گا جو اللہ کے دینِ اسلام سے ہم آہنگ نہیں ہو گا۔ شاید گانے سنے جا رہے ہوں گے، یا فیس بک لڑکیوں سے بات چیت کی جا رہی ہو گی یا پھر کوئی بھی چھوٹا یا بڑا ، کوئی ایسا کام ہو رہا ہو گا، جس کی ہمارے دین میں گنجائش نہیں ہو گی۔ لیکن کیا کیا جائے، یہ عشق ہمیشہ اسی وقت سامنے آتا ہے، جب کوئی بتاتا ہے۔ کوئی دماغ کی صفائی کرتا ہے، یعنی برین واشنگ۔ ورنہ کیسی محبت، کہاں کا عشق۔
اگر باشعور عوام الناس نے جنید کی وہ تقریر یا وہ درس سنا ہو جس میں اس نے امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ کیا ہے اور غور سے سنا ہو تو وہ یقینا یہ مانیں گے کہ جنید نے ایک حدیث کو اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا۔جہاں تک میں نے اس کو دیکھا ہے، سنا ہے، سمجھا ہے جنید نے وہ حدیث تھوڑا اس انداز میں بیان کی ہے کہ سامع کو آسانی سے سمجھ بھی آجائے اور وہ اس کو دل پر بھی نقش کر لے۔ پھر جب کچھ علماء نے اس وقت اعتراض کیاتھا تو جنید نے باقاعدہ معافی مانگ لی تھی۔ اللہ پاک سے توبہ کر لی تھی۔ جب یہ سب کچھ ہو گیا، تو پھر سال بعد لوگوں کے دلوں میں عشق کہاں سے جاگ گیا۔ کیا جنید جمشید نے اس کے بعد کوئی سفر نہیں کیا ہو گا، اپنے محلے کی مسجد میں نماز نہیں پڑھی ہو گی۔
کہیں خرید و فروخت کرنے نہیں نکلا ہو گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سب کچھ ہوا ہو اور کسی نے کچھ نہ کہا ہو۔ یقینا نہیں کہا کہ سب جانتے تھے کہ جنید نے جو کچھ جس انداز میں کہا وہ اگرچہ بظاہر کم علمی کی بنیاد پر تھوڑا مزاح سے پر ہو گیا، لیکن اس میں غلط کیا تھا۔ کچھ بھی نہیں۔ لیکن اس وقت یہ عرفان لدھا نامی نوجوان شاید پیدا نہیں ہوا تھا، تب ہی اس کو یہ علم نہیں تھا کہ جنید جمشید نے اس طرح کی کوئی بات کی ہے۔ورنہ اس نے تو ٹی وی سٹیشن پر حملہ کر دینا تھا یا پھر اس محفل کو سبوتاژ کردینا تھا، وہاں خود کش دھماکہ کرنا تھا کہ سنت کے منافی، اسلام کی شان میں گستاخی ہو رہی تھی۔ جنید جمشید وہاں اللہ کی نہیں، اللہ کے رسول ۖ کی نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی باتیں نہیں کر رہا تھا بلکہ اسلام کی مخالفت میں درس دے کر لوگوں کے جذبات بھڑکا رہا تھا۔
جنھوں نے جنید جمشید پر ہاتھ اٹھایا، وہ ہر گز عاشق نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ جن کے عشق میں انھوں نے ہاتھ اٹھایا، انھوں نے تو ان اشخاص کو بھی کچھ نہ کہا جنھوں نے امی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر بہتان باندھا تھا۔ تفصیل کے لیے واقعہ افک اور سورة نور دیکھی جا سکتی ہے۔ ان الزامات لگانے والوں میں ایک امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا بہت قریبی رشتہ دار بھی تھا۔ اس بہتان کی ابتدا اگرچہ منافقین نے کی تھی جن کا سربراہ عبداللہ ابن ابی منافق تھا۔ لیکن پھر اللہ پاک نے سورة النور کی آیات نازل فرما کر ان کی برأ ت کا اعلان فرما دیا۔ اور اس طرح برأت فرمائی کہ تا قیامت وہ برأت جاری و ساری رہے گی۔ کہ ان آیات کی تلاوت قیامت تک کی جاتی رہے گی۔ تو لوگ، جب حضور پاک ان صحابہ کو کچھ نہیں فرمایا سوائے اس کے کہ صرف تنبیہ کی تو پھر ہم کون ہوتے ہیں۔
جنید جمشید کو برا بھلا کہنے والے، اگرچہ اس نے تو حدیثِ رسول ۖ کے الفاظ کے الفاظ کو اپنے انداز میں بیان کیا تھا۔ اور پھر بھی اس نے اپنی کم علمی کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو جاہل کہا اور توبہ کی اور سب سے معافی بھی مانگی۔ تو جب بندہ اللہ سے معافی مانگ لے (بشرطیکہ وہ مسلمان بھی ہو) تو پھر تو معاملہ رب اور اس بندے کے درمیان ہو گیا۔جہاں تک ممتاز قادری کے حوالے سے بات ہے کہ اس کے عشق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ عمل انجام دیا گیا۔ تو یہ مطابقت یا مسابقت تو ہر گز غلط ہے۔ اس نے جو کیا وہ عشق رسول ۖ میں کیا۔عشقِ رسول میں اگر حکومت وقت کوئی ایکشن نہیں لیتی باوجود اس کے کہ گستاخی کرنے والے کے خلاف باقاعدہ تصویری یا فلمی ثبوت ہیں تو پھر شاید اللہ کو یہ منظور نہ ہو گا کہ اپنے حبیب کے گستاخ کو اس زمین پر زندہ رہنے کا حق دے۔ اسکی حالت یقینا ایسی ہو جاتی ہے جیسے دھتکارا ہوا۔ جو رسول پاک ۖ پر حد سے زیادہ بہتان باندھے۔
، تہمت لگائے اس کے بارے میں اللہ نے ایک لفظ ”زنیم” فرمایا ہے۔ جس کا مختلف تفاسیر میں مختلف ترجمہ کیا گیا ہے۔ کلام عرب میں یہ لفظ اس ولدالزنا کے لیے بولا جاتا ہے جو دراصل ایک خاندان کا فرد نہ ہو مگر اس میں شامل ہوگیا ہو۔ سعید بن جبیر اور شعبی کہتے ہیں کہ یہ لفظ اس شخص کے لیے بھی بولا جاتا ہے جو لوگوں میں اپنے شر کی وجہ سے معروف و مشہور ہو۔ ان آیات میں جس شخص کے یہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں اس کے بارے میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں۔ کسی نے کہا ہے کہ یہ شخص ولید بن مغیرہ تھا۔ کسی نے اسود بن عبد یغوث کا نام لیا ہے۔ کسی نے اخنس بن شریق کو اس کا مصداق ٹھیرایا ہے۔ اور بعض لوگوں نے کچھ دوسرے اشخاص کی نشاندہی کی ہے۔ لیکن قرآن مجید میں نام لیے بغیر صرف اس کے اوصاف بیان کردیے گئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں وہ اپنے ان اوصاف کے لیے اتنا مشہور تھا کہ اس کا نام لینے کی ضرورت نہ تھی۔ اس کی یہ صفات سنتے ہی ہر شخص سمجھ سکتا تھا کہ اشارہ کس کی طرف ہے۔
اب جہاں تک بات گستاخی کی نکلتی ہے تو جو سر عام گستاخی کرتے پھرتے ہیں ، قرآن پاک کی شان میں ، اللہ پاک کی شان میں ، رسول پاک ۖ کی شان میں ، ان کی تعلیمات میں تحریف کرتے ہوئے، اس کو تو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ بلکہ اس کے پیچھے پیچھے چلنا فخر سمجھتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے۔ عامر لیاقت حسین سر عام مجمع میں کہتا ہے کہ ایک صحابی کو سوالات کرنے کا بہت شوق تھا۔ اس کی وجہ یہ بدبخت یہ بتاتا ہے کہ اس صحابی کو کوئی بات سمجھ ہی نہیں آتی تھی ۔ اس لیے وہ سوال در سوال کرتے تھے۔ جس لہجے میں ، جس انداز سے یہ بات عامر لیاقت حسین نے کی وہ صریح اس بات کا غماز تھی کہ وہ نعوذباللہ ان صحابی رضی اللہ عنہ کو کم عقل، بے وقوف یا کندذہن سمجھ رہا ہے۔
مجال ہے جو اس مجمع میں کوئی بھی اٹھ کر بولا ہے کہ اے مداری مولانا، یہ کیا بکواس کر رہے ہو۔۔۔۔ اس کے بعد پھر جب ایک خاتون نما اینکر پرسن کے سوال پر دوپٹہ کو مستثنا قرارد یا تو بھی ارد گرد افراد میں سے کوئی کیمرہ مین، کوئی ورکر میڈیا کا اٹھ کر نہیں بولا کہ یہ کیا بکواس کر رہے ہو۔ پھر جب وہ علمائے سو کے سامنے فلموں کی، گانوں کی باتیں کر رہا تھا، گالیاں بک رہا تھا، تو ان علماء نے بھی احتجاج نہیں کیا کہ یہ کیا بکواس ہے۔
گستاخی رسول ۖ کا جو قانون ہے اس میں جو ترمیم کی بات کرے، اسے چاہیے کہ پھر بات کو ثبوت کے ساتھ کرے۔ یہ ثابت کرے کہ توہین رسالت کے قانون میں نعوذ باللہ کوئی قدغن ہے، کوئی کمی ہے۔ لیکن کچھ ہو گا تو ملے گا نا۔ورنہ تو اس قانون کو نعوذ باللہ غلط کہنے والا خود ہی غلط ہو گا۔ ہاں، پ نے اگر جنید جمشید کو کچھ کہنا ہی ہے تو اس بات پر کہیں کہ اس نے فیشن شو کا افتتاح قصیدہ بردہ شریف پڑھ کر کیوں کیا۔ اس نے دوبارہ سلمان احمد، جو نعوذباللہ قرآن کی آیات کو گٹا ر پر گانا نیک کام سمجھتا ہے، کے ساتھ مل کر گانا کیوں گایا۔ پھر گانا کیوں گایا، جو کہ اسلام کی تعلیمات کی رو سے ممنوع ہے۔ اگر آپ نے جنید جمشید کو برا ہی کہنا ہے تو اس بات پر کہیں کہ پہلے وہ تعلیمات پوری کرے، پھر ان پر عمل کی کوشش کرے۔ تب عوام الناس کو تبلیغ کرے۔ ورنہ اپنی عاقبت ہی سنوار لے تو بہت ہے۔
تحریر : ابنِ نیاز