تحریر : راؤ خلیل احمد
آج صبح فجر سے کچھ پہلے خواب میں اپنے بڑے بھائی کو بیمار دیکھا ساتھ میں اپنے چھوٹے بیٹے کو زخمی اور نہایت ہی نحیف حالت میں دیکھا، پاکستان فون کیا تو سب خیریت تھی مگر طبعت پھر بھی بوجھل تھی۔ رات کو سونے سے پہلے مستقبل میں ہوائی جہاز کے حادثے میں انسانی جانوں کے بچاؤ پر منبی ایک پوسٹ ان الفاظ کے ساتھ شئیر کی کہ ” اللہ ہی کی زات ھے جو زندگی کو موت اور موت کو زندگی میں بدل سکتی ہے۔مگر وہ لوگ جو کوشش کرتے ہیں اللہ انہیں راستہ دیکھاتا ہے ،کیوں کہ وہ صرف رب المسلمین نھیں رب العلمین ہے۔جہاز کا کریش ہو تو زندگی کی امید صفر فیصد ہی ہوتی ہے مگر اب سو فیصد ہو سکے گی ” آفس کا مارنگ ٹائم بھی سٹریس سے لبریز تھا لنچ پر گھر آیا تو جہاز کے کریش کی خبر اور ساتھ ہی دل دل پاکستان کے دل ڈوبنے کی خبر ملی شام کو ایک سرلنکن دوست کی بیٹی کی پارٹی تھی مگر دل اور دماغ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ آہ جنید جمشید!!!۔
جنید جمشید کا دل دل پاکستان رگوں میں گردش کر رہا تھا· بوجھل دل سے لیٹ گھر پہنچا اور جنید جمشید کی زندگی پر لکھ کر اپنے زندہ رہ جانے کا حق ادا کرنا چاہتا تھا مگر راؤ کامران علی نے مجھ سے پہلے مجھ سے کہیں بہتر ادا کر دیا تھا راؤ کامران لکھتے ہیں کہ بچپن میں جو پہلا گیت زبان پر چڑھا وہ “دل دل پاکستان” تھا۔ جنید جمشید سے پہلا پیار ” یہ کیسی زمیں یہ کیسا سماں دل دل پاکستان جاں جان پاکستان کی بدولت ہوا ۔ جنید جمشید اعلیٰ تعلیم، بے پناہ وجاہت، نظروں کو خیرہ کر دینے والے اسٹارڈم کے ساتھ وہ ہر دل کی دھڑکن تھا ۔ جس مقام سے لوگ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے وہ اس “بھریا میلے” کو چھوڑ کر الّلہ والوں کے راستے پر لگ گیا۔ اور پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا۔
لیکن ہمارے منافق معاشرے نے سمجھا کہ شاید اسکا “نیا جنم” ہوا ہے اس لئے اسکا ہر عمل تنقید کی چھلنی سے گُزرنے لگا۔ لوگ بھول گئے کہ سالہا سال ایک “لائم لائٹ ” میں وقت گزارنے کے بعد اسکا دل بدلا ہے لیکن رویے بدلتے وقت لگے گا۔ اگر کسی کے ساتھ سیلفی لے لی ہے تو “حلال سیلفی” کہہ کر تمسخر اُڑایا گیا، اگر اسٹیج پر پرانے گلوکار یاروں کے ساتھ ویسے ہی کھڑا ہو گیا تو “حلال کنسرٹ” اور اگر کسی تقریب میں منعقد کیا گیا جہاں اسکے علم میں لائے بغیر کوئی رقص ہو گیا تو وہ “حلال ڈانس”کہہ کر سنگ باری کی گئ۔ اب پتا نہیں کہ مہندی اور شادی پر جو ہم سب خوشیاں اور جشن مناتے ہیں اور رقص کرتے ہیں وہ “حلال” ہوتا ہے یا نہیں؟؟؟؟۔
جب جنید جمشید شوبز کی لائم لائٹ کی انکھیں چندھیا دینے والی روشنیوں میں تھا تو ہر کوئی ہر عمر، طبقے اور مذہب کا آدمی اس کی محبت کا دم بھرتا تھا، مگر راہِ حق میں آنے کے بعد تقریباً ہر فرقے کے لوگ اس سے خار کھانے لگے۔باقی فرقے تو دور اسکے اپنے فرقے کے کئ لوگوں کی “روزی روٹی” جنید کی کشش سے متاثر ہونے لگی حالانکہ اس شاندار انسان نے کبھی کسی فرقے کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ دیوبندیوں کی تعلیمات، بریلویوں کی نعتوں اور اہلِ تشیع کے مرثیوں کا علمبردار تھا یہ شخص۔ “لبرلز” یا آزاد خیال، جو اسکے گانوں پر “ٹُن ہو کر” جھومتے تھے اسکا ٹھٹھہ آڑانے لگے۔ جنید جمشید کی زبان کی ایک لغزش کا موقع فائدہ آٹھاتے ہوئے، ایک اینکر نے ٹی وی پر بھرے شو میں جنید جمشید کی والدہ کو گالی دی لیکن اس بھلے آدمی نے اسکا جواب نہیں دیا۔ اگر کسی “مولوی صاحب” کا ذریعہ آمدنی معلوم نہ ہو تو وہ “حرام خور” یا چندہ کھانے والا اور اگر وہ کُرتے بیچے تو پیسوں کا لالچی تاجر کہلائے!!!کبھی الزام لگانے والا اپنے ضمیر میں جھانک کر دیکھ لے تو ایسا ہرگز نہ کرے۔
طالبان اور داعش کی “مہربانی” سے لوگ ویسے ہی سنت داڑھی اور اونچی شلواروں والوں سے دور ہٹنے لگے ہیں تو ایسے میں لوگوں کے محبوب اداکار اور گلوکار یا کرکٹرز کی کشش تبلیغ میں اہم کردار ادا کرتی ہے، لیکن جنید جمشید کی انھی تکلیفوں اور مصیبتوں کو دیکھتے ہوئے “علی حیدر”واپس اپنے راستے پر لوٹ گیا ہے۔ ہر سال امریکہ ہمارے فنکشنز میں آتا ہے اور ڈالرز کماتا ہے۔ وہ بھی خوش، لبرلز اور مذہبی فرقے بھی خوش۔رہے نام الّلہ کا جنید جمشید نہیں رہا لیکن اسکا اثر، اسکی تعلیمات، اُسکا محبت، رواداری اور رزقِ حلال کمانے، کھانے اور کھلانے کا پیغام زندہ ہے اور رہے گا۔ اسکی تبلیغی خدمات مشعلِ راہ ہیں اور رہیں گی۔ وہ ہمیشہ ہماری دعاؤں میں شامل رہے گا۔ اسکے چاہنے والے اسکی تعلیمات اور تبلیغ کی وراثت کے امین ہیں۔
47 لوگوں کی شہادت کا غم اور جنید جمشید کی شہادت پر اس پر ہوئے ظلم کی یاد نے طبعت میں تغیر پیدا کر دیا ۔ مگر اپنے آپ سے گھن اس وقت آئی جب فرقہ پرستی میں ابلے گندے انڈوں نے آج بھی جنید جمشید کو نہیں بخشا! سمجھ نھیں آتی کہ ہم سنی ہیں کہ مسلمان ہیں ! شعیہ ہیں کہ مسلمان ہیں ، وہابی ہیں کہ مسلمان ہیں۔ آج لگتا یہ ہے کہ ہم سنی بھی ہیں ، وہابی بھی ہیں ،شعیہ بھی ہیں پر مسلمان نہیں!۔