تحریر: رانا اعجاز حسین
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار داد کے تحت فیصلہ کیا تھا کہ 2001ء سے ہر سال 20 جون کو پناہ گزینوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائیگا۔ جس کا مقصد عوام کی توجہ ان لاکھوں پناہ گزینوں کی طرف دلوانا ہے کہ جو جنگ، نقص امن یا مختلف وجوہات کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کردوسرے ملکوں میں پناہ گزینی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس دن لوگوں میں سوچ بیدار کی جاتی ہے کہ وہ ان پناہ گزین بھائیوں کی ضرورتوں اور ان کے حقوق کا خیال رکھیں۔ اقوام متحدہ میں پناہ گزینوں کا ادارہ UNHCR یو نائیٹڈ نیشن ہائی کمشنر فار رفیوجیز اور مختلف انسانی حقوق کی تنظیمیں دنیا کے سو سے زائد مما لک میں اس دن کو خوب جذبہ سے مناتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ہر سال 20 جون کا دن پناہ گزینوں کے عالمی دن کے طور پر منا یا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر جنگوں، بدامنی ، نسلی تعصب،مذہبی کشیدگی ،سیاسی تناؤ اور امتیازی سلوک کے باعث آج بھی کروڑ وں افراد پناہ گزینوںکی حیثیت سے دوسرے ممالک کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ایسے افراد انتہائی غربت کے ساتھ زندگی گزارنے کے ساتھ بنیادی حقوق سے بھی محروم رہتے ہیں۔ افغانستان میں امن و امان کی مخدوش حالت کے پیش نظر پاکستان میں اس وقت لاکھوں کی تعدا د میں افغان بطور مہاجر پناہ گزین ہیں۔ پاکستان اس وقت جہاں خود امن و امان، معاشی و انرجی بحران مختلف بحرانوں کا شکار ہے، ایسے حالات میں پناہ گزینوں کی یہ بڑی تعداد پاکستان کے لیے معاشی طور پر مزید مسائل پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے، جب کہ افغانستان کی صورت حال اب بہتری کی جانب گامزن ہے، ایسے میں حکومت پاکستان افغان پناہ گزینوں کو واپس اپنے ملک بھیجنے کے لئے اقدامات کررہی ہے، واپسی پر ان خاندانوں کو معقول وظیفہ بھی دیا جارہا ہے مگر اس کے باوجود لاکھوں افغان پناہ گزین واپس جانے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔
اب افغانستان میں امن و امان کی صورتحال قدرے بہترہے، حکومت پاکستان کو چاہئے کہ افغان پناہ گزینوں کو واپسی پر قائل کرنے کے لئے مذید اقدامات کرے، تاکہ ملک پر پناہ گزینوں کا اضافی بوجھ ہلکا ہو سکے۔ ان دنوں شام میں مسلمانوں پر جاری بد ترین مظالم ، بیرونی مداخلت اور اندرونی انتشار کے باعث 20 لاکھ سے زائد افراد کو دوسرے ممالک میں ہجرت کرنا پڑی ہے اور ایسے افراد اردن، لبنان، ترکی اور عراق میں پناہ گزینوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
جبکہ اسرائیلی جارحیت کے باعث فلسطینی مسلمان اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ممالک کے رحم و کرم پر ہیں اور پناہ گزینوں کے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ فلسطین کے بعد مہاجرین کے حوالے سے بڑا ملک افغانستان ہے جس کے 26 لاکھ 64 ہزار افراد مہاجر کی حیثیت سے دوسرے ممالک میں موجود ہیں، عراق کے 14 لاکھ 26 ہزار افراد، صومالیہ کے 10 لاکھ 7 ہزارافراد، سوڈان کے 5 لاکھ سے زائد افراد دوسرے ملکوں میں پناہ گزینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان کو عالمی یوم پناہ گزین پر اپنے بنگلہ دیشی پاکستانی محصورین کو نہیں بھولنا چاہیے جو آج بھی اپنے دل میں پاکستان کی محبت لیے بنگلہ دیشی حکومت کے ناروا سلوک کا ظلم جھیل رہے ہیں۔
جنگوں، تشدد اور دہشتگردی کے باعث بے گھر اور ہجرت پر مجبور افراد کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور ان کی تعداد جنگ عظیم دوم کے دوران بے گھر افراد سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے مہاجرین کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جنگ اور دہشتگردی کے باعث اندرون ملک اور دیگر ممالک میں ہجرت کرنے والے افراد کی تعدادتین کروڑ تک پہنچ چکی ہے جو کہ اب تک کے ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ ہے۔ مہاجرین کی اس حالیہ تعداد میں اضافے کی بڑی وجہ شام میں جاری خانہ جنگی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں پناہ لینے والے شامی مہاجرین کی تعداد رواں برس 20 لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور یوں ترکی اس وقت پاکستان کو پیچھے چھوڑ کر مہاجرین کو پناہ دینے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے جبکہ پاکستان میں پناہ گزینوں کی تعداد 14 لاکھ بتائی جاتی ہے جن میں اکثریت افغانیوں کی ہے۔ شام کے مظلوم شہری اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بے گھر اور پناہ گزین ہیں۔ اس کے بعد افغانستان اور صومالیہ کا نمبر آتا ہے جبکہ میانمار سے ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں کا ادارہ UNHCR یونائیٹڈ نیشن ہائی کمشنر فار رفیوجیز کے سربراہ اینتونیوگ ترز کا کہنا ہے کہ یہ تعداد انتہائی پریشان کن ہے، اس سے نہ صرف بڑے پیمانے پر انفرادی تکالیف کی عکاسی ہوتی ہے بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ عالمی برادری کشیدگی کو روکنے اور مسائل کے بروقت حل میں کس قدر ناکام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ 76 لاکھ پناہ گزینوں کا مطلب ہے کہ ہر چار اعشاریہ ایک سیکنڈ کے بعد ایک شخص کو اپنا گھر چھوڑنا پڑ رہا ہے، آپ کے ہر پلک جھپکنے پر ایک اور شخص پناہ گزین بن رہا ہے۔
اپنا گھر، اپنا سرزمین چھوڑنے کا دکھ ایک پناہ گزین ہی جان سکتا ہے اس پر غیر ملک میں پناہ گزین کی حیثیت سے کسمپرسی کی زندگی بسر کرنا انسانیت کی تضحیک کے مترادف ہے، بلاشبہ میزبان ملک پناہ گزینوں کو جگہ دے کر انسانیت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ پناہ گزینوں کو کبھی بھی برابر کے شہری حقوق میسر نہیں آتے۔ پناہ گزینوں کے اس عالمی دن کا پیغام ہے کہ اقوام عالم کو چاہئے وہ اقوام متحدہ کے کردا رکو اس قدر مضبوط بنائیں کہ وہ ملکوں، قوموں کے درمیان تنازعات، شورشوں اور نقص امن کی صورتحال پر اپنا موثر کردار ادا کرسکے، تاکہ دنیا بھر کے ممالک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہواور کسی کو کسی دوسرے ملک میں پناہ گزینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔
تحریر: رانا اعجاز حسین
ای میل :ra03009230033@gmail.com
رابطہ نمبر:03009230033