خدائی صفات رکھنے والی اس ہستی کا دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں ۔انسان کے دنیا میں جتنے بھی رشتے ہیں ان سب میں سب سے اعلیٰ و برتر رشتہ ماں کی ذات کا ہی ہے۔ بے لوث پیار کرنے والی اس ہستی سے ہی گھروں کی دنیا بستی ہے ورنہ اس کے بغیر گھر صرف مکان ہی نہیں بلکہ کھنڈرات رہ جاتے ہیں ۔کہا جاتا کہ بچہ جب گود میں ہوتا ہے تو بس اسکی ساری دنیا صرف ماں کی آغوش ہی ہوتی ہے۔لیکن میں ذاتی طور پر اس بات سے مکمل اتفاق نہیں کرتا کیونکہ میں اتنی عمر گزارنے کے بعد آج بھی یہ ہی کہتا ہوں کہ میرے لیے تو میری کل کائنات میری ماں ہی ہے۔ shakespeareبھی تو یہ ہی کہتا ہے کہ ’’بچے کے لئے سب سے اچھی جگہ ماں کا دل ہے بے شک بچے کی عمر کتنی ہی ہو جائے‘‘۔اور بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں ماں جیسی دولت اور ان کی خدمت نصیب ہوتی ہے۔
mother’s dayپہلی مرتبہ 1908 ء میں امریکہ میں منایا گیا تھا اور آج تک دنیا بھر میں اس ڈے کو منانے کا سلسہ جوش و جذبے سے جاری و ساری ہے۔اس دن کا مقصد ماں کی اہمیت کا احساس دلانااور اس کی عظمت کو سلام پیش کرنا ہے۔عورت کا سب سے خوبصورت روپ ماں ہی ہوتی ہے یہ لفظ جب عورت کی ذات سے جڑتا ہے تو بس یہ ہی اس کے لئے دنیا میں سب سے بڑا تمغہ یا اعزاز ہوتا ہے جس پر وہ خود بھی خوب ناز کرتی ہے ایک عورت جب ماں کا روپ دھارتی ہے تو اسے خود احساس ہوتا ہے کہ جیسے اس کی اپنی ذات اب ہی مکمل ہوئی ہے۔جب عورت بیٹی،بہن یا بہو سے ماں تک کاسفر طے کرتی ہے تو اسے سب سے خوبصورت منزل ماں کی ہی لگتی ہے۔ہماری مشرقی عورتیں تو ویسے بھی ماں کا روپ دھارتے ہی اپنی ذندگیوں کو اولاد کے لئے وقف کر دیتی ہیں ان کی ہر خوشی اولاد سے ہی جڑ جاتی ہے۔عام طور پر بچہ اپنی غوں غاں کے بعد پہلا لفظ جو منہ سے نکالتا ہے وہ ماں ہی ہوتا ہے اور جب پہلا قدم بھی اٹھاتا ہے تو وہ ماں ہی کی انگلی کا سہارا لئے ہوتاہے ۔بے شک بچے کی پہلی درسگاہ اسکی ماں کا آنگن ہی ہوتاہے۔بچے کو بولنا ،چلنا،کھانے کا طریقہ اور دیگر آداب زندگی ایک ماں جتنی خوش اسلوبی سے سکھا سکتی ہے دوسرا کوئی نہیں۔ویسے بھی جو آداب ماں سکھاتی ہے وہ کتابوں سے نہیں سیکھے جا سکتے۔اور ایک مزیدار حقیقت یہ ہے کہ بچہ جوان بھی ہو جائے اور حتیٰ کہ خود بچوں والا ہو جائے لیکن اس کے لئے فکر یا احساس جو ایک ماں کر تی ہے وہ اس کی بیوی یا اولاد نہیں کر سکتی۔اتنا احساس کرنے اور اتنی قربانیا ں دینے کے بعد جب اولاد نافرمان نکلتی ہے تو ہم اندازہ نہیں کر سکتے کہ انہیں کتنا دکھ اور تکلیف پہنچتی ہے۔ان کی اس کیفیت کو لفظوں میں سمیٹنا نا ممکن ہے۔والدین خاص طور پر ماں تو اتنی قابل احترام ہستی ہے کہ اس کی جتنی بھی قدر کی جائے اتنی ہی کم ہے۔مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ کیسے اور کون لوگ ہیں وہ جو اپنی ماں سے اونچی آواز میں بات کرتے اور بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔خدا انہیں ہدایت نصیب کرے۔آمین۔ماں کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خالق کائنات نے جنت کو ماں کے قدموں تلے رکھ دیا ہے۔
اگر گھر کو ایک پھول سے تشبیہہ دی جائے تو گھراگر پھول ہے تو ماں اس کی خوشبو۔اگر معاشرے پر نظر ڈالیں تو بہت سے ایسے گھرانے ہیں جن میں بچے اپنے والدین سے لڑ جھگڑ کر نہ صرف ان کا سکون بلکہ اپنا نظام ذندگی بھی تباہ و برباد کر رہے ہیں۔بچہ ہی تو والدین کی آنکھوں کا تارا اور ان کے بڑھاپے کا سہارا ہوتا ہے لیکن جب وہ ہی ان سے دور ہو جائے تو ایسے ہی کہ جیسے ماں باپ سے ان کی بینائی چھین لی جائے۔قارئین محترم اگر سچ بتاؤں تو جیسے کہ بچے پیار کے بھوکے ہوتے ہیں بالکل اس طرح بزرگ بھی پیارواحترام کے ہی پیاسے اور طلب گار ہوتے ہیں۔ایک بچہ جیسے اپنے بچپن میں حساس ہوتاہے ویسے ہی انسان بڑھاپے میں بھی حساس ہو جاتاہے اور اولاد کی زبان سے ادا ہونے والے تفرلوں کا ان پر ایسا ہی اثر ہوتا ہے جیسے کسی بچے پر اس کو دھمکائے جانے کے بعد۔اللہ تعالی نے بھی یقینااسی سلسے میں فرمایا ہے کہ جب والدین بوڑھے ہو جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو۔(القرآن)۔ کسی گھر میں اگر ایک ماں بیمار ہو جائے تو چاہے بیٹے بیٹیاں جوان بھی ہو ں لیکن اس گھر کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے جس طرح ایک ماں اپنے بچوں کو اپنی چادر میں چھپانا جانتی ہے ساری اولاد مل کر بھی ایک ماں والا کام نہیں کر سکتی۔میں اپنے اس کالم میں ان ماوءں کے لیے دعا کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جن کی مائیں گھروں میں بیمار ہیں یاہسپتالوں میں زیرِعلاج ہیں۔اللہ تعالی ان سب کو جلد صحت یابی و شفائے کاملہ عطا فرمائے اور ماؤں کا سایہ بچوں پر دیر تک سلامت رکھے۔اور مجھ سمیت سب کو اپنی ماؤں کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔انسان کو دنیا میں بہت لوگ بہت سی اپنائیت اور بہت سا پیار دیتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ ماں جیسا دنیا میں کوئی بھی نہیں۔آخر میں اپنی ماں کی شان میں صرف اتنا کہوں گا۔کہ
اے ماں ! تیرا سایہء رحمت مجھ پہ صد ا سلامت رہے
میں تیرے قدموں کی خاک رہوں تو ممتا کی علامت رہے