انور غازی
کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جو انصاف پر مرمٹتے ہیں اور کتنے بدنصیب ہوتے ہیں وہ جن کے قلم ایسے فیصلے لکھیں جوظلم پر مبنی ہوں۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے قتل کیس میں سزا یافتہ مجرم کو 19 سال بعد ٹھوس شواہد نہ ہونے کی بنا پر مقدمے سے بری کردیا۔ جب پولیس اہل کار ان کی رہائی کا حکم لے کرجیل پہنچے تو مظہر کو وفات پائے دو سال ہوچکے تھے۔ کسی کی جان گئی، ان کی ادا ٹھہری۔ خاص طور پر جوانی کا زمانہ تو انسان کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے۔ کیا اس کے یہ انیس سال قیمتی نہیں؟ 19 سال کی حسین بہاروں کو خزاں میں بدلنے کا ذمہ دار کون ہوگا؟ قارئین! جب معاشرے میں بگاڑ آتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ انصاف کا فقدان ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے اجڑ جاتے ہیں جہاں انصاف کے پیمانے بدل جائیں۔ مشہور واقعہ ہے ایک طوطا طوطی کہیں جارہے تھے رستے میں ایک ویران جگہ دیکھی۔ طوطی نے پوچھا: ’’یہ شہر اور علاقہ کیوں تباہ ہوا؟‘‘ طوطے نے کہا: ’’اُلوئوں کی وجہ سے، کیونکہ یہ منحوس جانور ہے۔ جہاں بیٹھتا ہے اسے ویران کردیتا ہے۔‘‘ اُلو کہیں قریب ہی بیٹھا سن رہا تھا۔ اس نے جواب دیا: ’’نہیں! ایسا ہرگز نہیں! نحوست ہم اُلوئوں میں نہیں ہے بلکہ بے انصافی میں ہوتی ہے۔‘‘ ہاں! یہ سچ ہے جہاں انصاف کا پیمانہ کمزوروں کے لئے الگ اور طاقتوروں کے لئے الگ ہو، وہ معاشرہ کبھی پُرامن نہیں ہوسکتا ۔ وہاں ایسی دہشت گردی جنم لیتی ہے جو سب کا امن وسکون غارت کرکے رکھ دیتی ہے۔ صدیوں پہلے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاف سب کے لئے ایک جیسا ہونے کی تعلیم دی تھی۔ آپ نے ایک موقع پر یہاں تک فرمایا تھا: ’’تم سے پہلے جو اُمتیں گزری ہیں، وہ اسی لئے تو تباہ ہوئیں کہ کمتر درجے کے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دیتے تھے اور اونچے درجے والوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے۔ اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ جس معاشرے میں بھی انصاف قائم ہوا، وہ مثالی بن گیا، وہ ترقی کرگیا۔ وہاں رزق کی کشادگی ہوگئی۔ وہاں جرائم ختم ہوگئے۔ جب کبھی انصاف کے پیمانے بدل گئے۔ کمزور ملکوں اور قوموں کے لئے الگ اور طاقت وروں کے لئے الگ وہاں افراتفری شروع ہوگئی۔ انصاف کے بارے میں حضرت علی ؓنے کہاتھا: ’’کوئی معاشرہ کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتا ہے لیکن انصاف کے بغیر نہیں۔‘‘ یہی وجہ تھی قرون اولیٰ میں امیرو غریب، خواندہ وجاہل، عوام وخواص، رعایا اور بادشاہ انصاف کے معاملے میں برابر ہوتے تھے، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے آپ کو قانون سے بالاتر نہیں سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے مجمع عام سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’اگر میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو وہ مجھ سے بدلہ لے لے۔‘‘ حضرت عمر ؓنے اپنے دورِ خلافت میں تمام منتظمین کوجمع کرکے فرمایا: ’’ان میں سے اگر کسی نے انصاف میں کمی وکوتاہی کی ہو تو وہ بدلہ اسی وقت لے سکتا ہے۔‘‘ تاریخ ایسے واقعات اور مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ حکمرانوں نے احتساب کے لئے اپنے آپ کو عدالت میں پیش کیا۔ کوئی بھی سر براہ مملکت عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ نہیں رہا۔ بڑے بڑے حکمران اور بادشاہ عدالت میں گئے۔ اپنے خلاف قائم ہونے والے مقدمات کا طوعاًو کرہاً سامنا کیا تو جان بخشی ہوئی۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں متعدد بار وقت کے چیف جسٹس جس کو قاضی القضاۃ کہا جاتا تھا، نے ریاست کے سربراہ کو عدالت میں طلب کرکے بازپرس کی۔ خلیفہ ثالث حضرت عثمان ؓنے مدینہ منورہ میں مفسدین کی طرف سے اپنے اوپر لگنے والے 8 الزامات کے عوام کی عدالت میں تسلی بخش جواب دیئے۔ حضرت علی ؓاپنے خلاف ایک یہودی کی طرف سے دائر کئے گئے دعوے کے بعد قاضی شریح کی عدالت میں بنفس نفیس پیش ہوئے۔ حضرت عمر فاروق ؓ،حضرت زید بن ثابت کی عدالت میں حضرت ابی بن کعب کی طرف سے دائر کئے گئے مقدمے میں حاضر ہوئے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک سلطان محمد تغلق کے خلاف ایک ہندو نے عدالت میں دعویٰ کیا۔ قاضی نے سلطان کو عدالت میں طلب کرلیا وہ بغیر کسی تاخیر قاضی کی عدالت میں جاپہنچا اور ملزم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑا ہوا۔ یہ ہیں سنہری روایات میں سے وہ چند گوشے جو آپ کے سامنے پیش کئے ہیں۔ جب ایک عام شہری بھی ملک کے سربراہ سے وضاحت یا جواب طلب کرسکتا تھا۔ہر زمانے میں مسلم حکمراں عدالتوں میں حاضر ہوکر اپنے خلاف قائم ہونے والے مقدمات اور الزامات کا جواب دیتے رہے۔ میرے سامنے میز پر حدیث اور تاریخ کی مستند ترین کتابوں کا انبار ہے جن میں یہ تمام واقعات درج ہیں۔ عربی کتاب ’’اخبار القضاۃ‘‘، ’’الاحکام السلطانیہ‘‘، ’’معالم القربۃ‘‘، ’’ادب القاضی‘‘ میں سینکڑوں مثالیں ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے حاکم وقت پر عدالت میں مقدمہ چل سکتا ہے۔ عدالت میں طلب کیا جاسکتا ہے،کوئی استثنا حاصل نہیں تھا، اور حق و سچ پر مبنی عدالتی فیصلوں کو قبول کیا۔ اب ایک اور نکتے کی طرف آجائیں! جو ناانصافی پر مبنی فیصلے کرتا ہے تاریخ اس کا نام تک مٹادیتی ہے۔ آئیے اس کی بھی چند مثالیں دیکھتے ہیں۔ یہ 1608ء کی بات ہے۔ گیلیلو نے دوربین کے ذریعے جب چاند کو دیکھا تواس نے چاند کی گھاٹیوں اور پہاڑیوں کے بارے میں لوگوں کو بتایا ۔یہ لوگ چاند کو دیوتا سمجھتے تھے ۔ بس پھر کیا تھا؟ ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ گیلیلوگرفتار ہوا۔ مجرم ٹھہرا۔ جج نے فیصلہ سنایا کہ اس کو زندہ جلا دیا جائے۔ تاریخ فیصلہ لکھنے والے جج کے نام سے بھی واقف نہیں۔ اسی طرح 1558ء عیسوی میں پیدا ہونے والے برونو نے جب جاہل معاشرے کے سامنے کہا : ’’زمین سورج کے گرد چکرلگاتی ہے تو قیامت بپا ہوگئی۔اسے گرفتار کرکے روم کی پاپائیت کے حوالے کیا گیا۔ احتساب کی عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔ ظلم پر مبنی فیصلہ لکھنے والے جج کا نام تک تاریخ کے صفحات پر موجود نہیں۔ جب فرانس کی ظالم بادشاہت کسانوں پر مقدمات بنا رہی تھی تو مادام رولاں ان کی حمایت کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی، وہ ظلم کے خلاف آواز تھی، گرفتاری ہوئی، مقدمہ چلا، جج نے پھانسی کی سزا سنائی۔ مادام آج بھی فرانس میں زندہ ہے لیکن ناانصافی پر فیصلہ لکھنے والے جج کا کوئی نام تک نہیں جانتا۔ یہ چند مثالیں ہیں ورنہ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ دوستو! قانون کو تو نسیم ِصبح کی سبک خرام اور صبحِ نو کی طرح پاک و شفاف ہونا چاہئے نہ کہ اس طرح کہ آنے والی نسلیں کلنک کے اسی ٹیکے کو دیگر اقوام سے چھپاتی پھریں اور اپنے ماضی پر شرمسار رہیں۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ انصاف کیسا ہونا چاہئے۔