یہ 2015 کے آخری مہینوں کی بات ہے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہیڈ کوارٹرز قذافی سٹیڈیم میں پاکستان سپر لیگ کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔ پی سی بی کی دوسری منزل پر واقع پاکستان سپر لیگ کے شعبہ مارکیٹنگ میں سب اپنے اپنے کام میں مصروف تھے کوئی سر جھکائے، کوئی کمپیوٹر پر نظریں جمائے تو کوئی لیپ ٹاپ میں مصروف تھا۔ ایک نوجوان شعبہ مارکیٹنگ کی سربراہ کے پاس آیا دھیرے سے کچھ بولا تو جواب میں ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ نے غیر معمولی انداز میں باآواز بلند کہا…. ”ڈونٹ لسن اینی ون، اونلی این ایس“ یہ تمام سننے والوں کے لیے اپنے شعبے کے سربراہ کی طرف سے واضح پیغام تھا کہ پی ایس ایل کے معاملات میں جسکو سب سے زیادہ اہمیت دینی ہے وہ ہیں چئیرمین گورننگ کونسل پاکستان سپر لیگ مسٹر نجم سیٹھی۔این ایس آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان سپر لیگ کو ایک الگ کمپنی بنا دیا گیا ہے تو شعبہ مارکیٹنگ کی سربراہ کے الفاظ کانوں میں گونجتے ہیں کہ کسی کی بات مت سنو سوائے نجم سیٹھی کے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس پراجیکٹ کے لئے سب سے زیادہ دلچسپی کس نے لی اور کوششیں کس کی تھیں۔ اب اگر اسے کمپنی بنایا جا رہا ہے تو اس کے پیچھے بھی بڑا ہاتھ نجم سیٹھی کا ہی ہے۔ اس فیصلے پر خاصی تنقید بھی ہوئی ہے لیکن بعض ماہر اور تجربہ کار افراد کی نظر میں کمپنی سے معیار بہتر ہو گا۔ پی ایس ایل کے سابق پراجیکٹ ہیڈ اور پہلے ایڈیشن کے ایونٹ ڈائریکٹر سلمان سرور بٹ کہتے ہیں کہ لیگ کے معاملات کمپنی بننے کے بعد زیادہ بہتر انداز میں چلائے جا سکتے ہیں زیادہ بہتر ہیومن ریسورس لیا جاسکتا ہے۔ سو الگ کمپنی بنانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کام کرنے میں آزادی ہو گی۔ دوسری طرف پی سی بی کے سابق چیئرمین خالد محمود بھی متفق ہیں کہ بورڈ کی زیر اثروانتظام سپر لیگ کو کمپنی بنانے کے مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں اور بظاہر یہ غلط فیصلہ نہیں ہے۔ اب آئندہ برس اس کا دوسرا ایڈیشن متحدہ عرب امارات میں ہو رہا ہے۔ امید ہے پہلے سال سے بہتر انتظامات دیکھنے کو ملیں گے۔ پہلے ایڈیشن کی بات کی جائے تو یہ خاصا کامیاب تھا بلکہ توقعات سے بڑھ کر خود نجم سیٹھی بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ کرکٹ بورڈ کے اندر کے لوگوں کو بھی یقین نہیں تھا کہ پاکستان سپر لیگ کا انعقاد ہو جائے گا یہ تو کوئی بھی نہیں سوچ رہا تھا کہ پہلاایونٹ اتنا کامیاب اور شاندار ہو جائے گا اور شاید یہ خود نجم سیٹھی کو بھی اندازہ نہ ہو کہ پی ایس ایل پہلے سال ہی کامیاب ہو گی ناصرف کامیاب ہو گی بلکہ مالی منافع کمانے کا سبب بھی بنے گی۔ جب کہ اس کے انعقاد سے پہلے سب سے بڑا خدشہ مالی خسارے کا ہی تھا۔ یوں پاکستان سپر لیگ کا پہلا ایڈیشن توقعات کے برعکس مثبت تاثر چھوڑنے دنیا بھر میں دیکھنے والوں کو متاثر کرنے اور توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا اس ایونٹ کی کامیابی ایسے ہی حیران کن اور غیر متوقع تھی جیسا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز جیت جائے اور کسی کو یقین نہ آئے حتی کہ خود کھلاڑیوں کو بھی۔ پاکستان سپر لیگ کے سٹاف اور اس سے جڑے لوگوں کے لیے پہلے ایونٹ کی کامیابی یقینی طور پر غیر متوقع ہی تھی۔ ہم نے تو دبئی کرکٹ سٹیڈیم کے باہر وہ مناظر دیکھے ہیں کہ دبئی کا شیخ زید سٹیڈیم ”منی پاکستان“ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ سٹیڈیم کے اندر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے تو سٹیڈیم کے باہر پاکستان کا روایتی رنگ بھی نظر آ رہا تھا حتی کہ ٹکٹیں بھی بلیک ہوتی رہیں اور ہمیں اپنے دوستوں کے لیے فری پاسز کا بندوبست بھی کرنا پڑا۔ لاہور قلندرز، اسلام آباد یونائیٹڈ، پشاور زلمی، کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے پرستار ہر میچ میں بھرپور حمایت کے لیے موجود رہتے تھے۔ پلے آف اور فائنل کا تو رنگ ہی نرالا اور منفرد تھا۔ اب ایونٹ کے دوسرے ایڈیشن کی تیاریاں گزشتہ سال کی طرح عروج پر ہیں۔ گزشتہ سال کے کامیاب تجربے کی بعد انتظامی معاملات چلانے والے کئی اہم لوگ اس مرتبہ پی ایس ایل مینجمنٹ کا حصہ نہیں ہیں۔ تاہم پہلی کامیابی کے بعد اس مرتبہ دنیا بھر سے زیادہ نظریں اس لیگ کی منتظر ہوںگی۔آئندہ سال ہونے والے دوسرے ایڈیشن کے بعد پاکستان سپر لیگ لمیٹڈ بن جائے گی آئندہ اس کے تمام معاملات پانچ رکنی بورڈ آف ڈائریکٹرز چلائیں گے۔ پہلے ایڈیشن کی طرح اگر اس مرتبہ بھی مقابلے جاندار ہوئے تو یہ مقبولیت اور پسندیدگی کے نئے ریکارڈز بھی قائم کرے گی۔ جسٹن بیبر کو افتتاحی تقریب میں پرفارم کرنے کی خبریں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ لاہور میں فائنل ہونے کے امکانات خاصے کم ہیں۔ پورا ایونٹ متحدہ عرب امارات میں ہو گا۔ اس مرتبہ بھی پی ایس ایل کے معاملات کو دیکھتے ہوئے تنقید کا سامنا صرف نجم سیٹھی کو ہے کیونکہ وہی روح رواں ہیں اسی لئے وضاحتیں دینے کے لئے بھی انہیں ہی سامنے آنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ ”ڈونٹ لسن اینی ون اونلی این ایس“ اس منصوبے کے جاری رہنے سے ملکی کرکٹ کو فائدہ تو ہو سکتا ہے اس کی شفافیت قائم رکھنے اور نمایاں سٹیک ہولڈرز کے لئے قواعدوضوابط بھی بنانا ضروری ہیں تاکہ کسی بھی قسم کی بدمزگی سے بچا جا سکے۔ سپر لیگ کو کمپنی بنانے سے کچھ سنجیدہ سوالات کرکٹ بورڈ کے اعلی افسران کے حوالے سے سامنے آئے ہیں۔ کیا واقعی پی سی بی کے بااثر افراد ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں یا پھر معاملہ کوئی اور ہے اگر کوئی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے تو پھر شہریار خان اور نجم سیٹھی اتنے بے بس کیوں ہیں؟ ؟ ؟