1969 میں نوبیل امن حاصل کرنے والے ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے منشور میں لکھا ہے ’’اگر آپ امن کے خواہش مند ہیں تو انصاف کاشت کیجیے مگر ساتھ ساتھ ایسے کھیت بھی تیار کیجیے جن میں زیادہ روٹی پیدا کی جاسکے ، ورنہ امن باقی نہیں رہے گا‘‘ یہ اعتراف کہ بھوک اور سماجی بدنظمی ایک دوسرے سے منسلک ہیں نئی بات نہیں اس لیے کہ عہد نامہ عتیق میں اس کا ثبوت موجود ہے ’’ اور یہ سب تو گزر جائے گا مگر جب وہ بھوکے ہونگے تو وہ خود کو خراب کریں گے اوراپنے بادشاہ اور اپنے خدا کو بد دعائیں دیں گے‘‘ یہ حقیقت ہے کہ روٹی کی کمی بھوکوں کو جنم دیتی ہے اور روٹی کی قلت بھوکوں کی فوج کو جنم دے دیتی ہے۔
آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں 70 فیصد آبادی روٹی کی شدید قلت کا شکار ہے اور تقریباً 60 فیصد آبادی بھوکی سوتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آج پاکستان میں بھوکوں کی پوری فوج تیار ہو چکی ہے ۔ ہر وہ شخص جو پاکستان میں پیدا ہوا ہے۔ غذا اس کا اخلاقی حق ہے اگر وہ بھوکا سوتا ہے تو یہ اس کی نہیں بلکہ ریاست کی ناکامی ہے اور اس ریاست کے وجود کے کوئی معنیٰ نہیں جس میں اس کے شہری بھوکے سوتے ہوں کیونکہ کوئی بھی چیز اتنی باریکی سے نہیں دیکھی اور محسوس کی جاتی جتنی کہ ناانصافی ۔ یاد رہے 1917 کے روس انقلاب کے دوران اس کے پرچم پر لکھا گیا تھا ۔ ’’روٹی اور امن ‘‘ یہ ہی دونوں انسان کی اولین ترجیح اور اولین حق ہیں۔
یاد رہے بھوک انسان کو تیزاب بنادیتی ہے جس زمین پر بھوک کے کھیت لہلہاتے ہیں ۔اس زمین سے تیزاب اگتا ہے اور جس زمین سے تیزاب اگتا ہے اس زمین پر کوئی محفوظ نہیں ہوتا حتیٰ کہ بند قلعوں ، محلات میں بھی نہیں مسلح گارڈز کے پہروں میں بھی نہیں کیونکہ تیزاب روشنی اور ہوا کی مانند ہوتا ہے جسے محفوظ سے محفوظ پناہ گاہ تک بآسانی رسائی حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے کہ تمام زندگیاں آپس میں رشتے دار ہیں تمام انسان باہمی انحصار پر مجبور ہیں مفلس کا دکھ امیر کو گھٹاتا ہے اور مفلس کی نجات امیرکو بڑھاتی ہے ہم ناگزیر طور پر اپنے بھائی کے نگہبان ہیں۔ اس لیے کہ حقیقتاً ہم ایک ہی ڈھانچے میں گتھے ہوئے ہیں۔
جان ڈن نے اس صداقت کا بڑے ہی خوبصورت انداز میں تجزیہ کیا ہے اس نے کہا تھا ’’کوئی بھی آدمی خودکفیل جزیرہ نہیں ہوتا۔ ہر شخص ایک براعظم کا ٹکڑا ہوتا ہے ایک مرکزکا حصہ۔ اگر سمندر میں ایک تو وہ بھی بہہ جائے۔ تو یورپ بھی چھوٹا ہوجائے گا۔ اسی طرح جیسے ایک راس زمین ۔اس طرح جیسے تم اور تمہارے دوست ۔ایک فرد کی موت بھی مجھے مختصرکردیتی ہے اس لیے کہ میں انسانیت میں شامل ہوں لہذا کبھی نہ پوچھوکہ گھنٹی کس کے لیے بج رہی ہے۔ شاید یہ تمہارے لیے بج رہی ہے۔‘‘
1922 کے امن انعام یافتہ نے پہلی جنگ عظیم کے بعد کہا تھا ‘‘ کاش میں آپ کو وہ مناظر دکھا سکتا جو میں نے خود دیکھے ہیں اور جن کا مجھے تجربہ ہے۔ کاش میں صرف ایک لمحے کے لیے آپ کو بتا سکتا کہ وحشیانہ دہشت کی ماری دیہاتوں کی سڑکوں پر ایک پوری قوم کو بھاگتے ہوئے کو دیکھ کر کیسا محسوس ہوتا ہے یا قحط کے مارے لوگوں کے درمیان سفر کرنا کسی جھونپڑے میں داخل ہونا جہاں مرد، عورتیں اور بچے ساکت لیٹے ہوئے ہوں جن کے لبوں پرکوئی شکایت نہ ہو بس صرف موت کا انتظار ہو جہاں قبریں کھود کر میتیں نکالی اور کھائی جاتی ہوں، لاشیں ہوں، جہاں بھوک سے پاگل عورتیں اپنی غذا کے لیے اپنے بچوں کو ذبح کرتی ہوں مگر نہیں اب مجھے مزید بیان کرنے کا یارا نہیں اور یہ لامتناہی بدقسمتی یہ ساری بدبختیاں اور ناقابل یقین دکھ یہ لاکھوں بھلائے ہوئے جنگی قیدی یہ قحط سالی یہ کروڑوں بے یارو مدد گار مہاجرین یہ سب بالواسطہ یا بلاواسطہ نتیجہ ہیں جنگ کا۔ مگر یقین کیجیے ایسی مصیبتیں ہمارے پورے سماجی نظام کی تباہی کے بغیر نہیں آسکتیں یہ قوموں کی توانائیوں کو چوس لیتی ہیں اور اتنے گہرے زخم لگاتی ہیں اگر وہ بھرنے لگیں بھی تو ان کو ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔
آپ نے 94 سال پہلے پہلی جنگ عظیم کے بعد اس کی تباہ کاریوں اور بربادیوں کی جس طرح سے منظرکشی کی تھی ۔اس سے انسان کا دل پھٹ جاتا ہے لیکن حضور اعلیٰ اگر آپ آج زندہ ہوتے اور آپ اگر آج پاکستان کے شہروں اور دیہات میں گھومتے اور جب آپ بیس کروڑ انسانوں کی تباہیاں اور بربادیاں اپنی آنکھوں سے دیکھتے تو آپ پہلی جنگ عظیم کی تباہیوں اور بربادیوں کو بھول جاتے۔
آپ کا دل لوگوں کے دکھوں، غموں اوردرد کو دیکھ کر پھٹ جاتا اور آپ اپنے آپ کو پیٹتے ہوئے چلاتے کہ خدایا یہاں توکوئی جنگ بھی نہیں ہوئی یہاں توکوئی آسمان بھی نہیں گرا یہاں تو کوئی ایٹم بم بھی نہیں گرا ۔ یہاں توکوئی آفت بھی نہیں آئی پھر یہ بربادیوں او رتباہیاں کیوں ۔ چیتھڑوں میں لپٹے، بیمار، بھوکے اور بدحواس لوگ کیوں بے مقصد تباہ شدہ میدانوں میں پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
پرانے خدا خون اور نفرت سے کیوں آسودہ ہوگئے ہیں کیوں لوگ لہو میں نہائے ہوئے ہیں کیوں چاروں اطراف خاک اڑتی پھر رہی ہے کیوں لوگ اپنے ڈھانچے چباتے پھررہے ہیں ۔ یہ زمین پر رینگتے، سسکتے، غلیظ، گندگی کے ڈھیر انسان ہیں یا مردے ہیں یہ گلے سڑے انسان کیوں بن گئے ہیں اگریہ لاغر، افلاس کے مارے، خون تھوکتے اپنے جسموں کے اعضا فروخت کرتے، ہڈیوں کا ڈھیر انسان ہیں تو پھر لاشیں کسے کہتے ہیں یہاں گلی گلی آوارہ موت کیوں گھومتی پھررہی ہے۔
اے خدا یہاں کیوں اتنی ناانصافی ہے یہ سب کچھ تباہی اور بربادی دشمنوں اور غیروں کی نہیں بلکہ اپنوں کی مہربانی ہے یہ قیامت خدا نے نہیں اپنوں نے برپا کر رکھی ہے ۔ میرے زمینی خداؤں یہ سچ ہے کہ تم کامیاب ہوگئے خوشیوں کے اور شادیانے بجاؤ عیاشیوں میں اور مست ہوجاؤ بھوکوں کو اور زور، زور سے گالیاں دو لیکن ذرا پیچھے مڑکر تو دیکھ لو دیکھو، اندھیروں میں سے دہشت ناک اور وحشت ناک ننگے بھوکوں کے غول کے غول تمہاری طرف بڑھے چلے آرہے ہیں کیا تمہیں ذرا برابر احساس نہیں ہورہا ہے دیکھو وہ تیزی سے تمہاری طرف بڑھے چلے آرہے ہیں، بڑھے چلے آرہے ہیں۔