تحریر : طارق حسین بٹ
ہر آنے والا دن حکومتی بے حسی میں اضافے کا موجب بن رہا ہے جس سے حکومتی اہلکار ہٹ دھرمی پر اتر آئے ہیں۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔پی پی پی جس سے با اصول اپوزیشن رول کی امید کی جا سکتی تھی وہ مفاہمتی سیاست کے کھونٹے سے بندھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ وفاقی جماعت کی بجا ئے صوبائی پارٹی بن کر رہ گئی ہے لیکن پی پی پی کے قائدین مفاہمتی سیاست کے کھونٹے سے خود کو آزاد کروانے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے۔اس طرح کی غیر حقیقی سوچ کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف نے مسلم لیگ (ن ) کے مدِ مقابل خود کو واحد اپوزیشن پارٹی ثابت کر کے پی پی پی کے مورچے سے اس کے ووٹ چرا لئے ہیں۔
اب تحریکِ انصاف ہی مسلم لیگ (ن) کے سامنے اپوزیشن جماعت کی حیثیت سے ڈٹی ہوئی ہے جس سے اس کی عوامی حمائت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور عوام اس جما عت سے اپنی ساری امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ حکومت احتساب سے خوفزدہ ہے بلکہ المیہ ہے کہ حکومت احتسابی عمل میں تیزی کوغیر مرئی ہا تھوں کی کارستانی بتا رہی ہے۔حکومت یہ کہنے میں لیت و لعل سے کام نہیں لے رہی کہ کوئی غیر مرئی ہاتھ چیرمین نیب کی پیٹھ تھپتھپا رہا ہے جس کے بل بوتے پر اہم حکومتی وزرا کو حراساں کیا جا رہا ہے۔ مجھے اس طرح کی سوچ سے انکار کی مطلق کوئی گنجائش نہیں کیونکہ پاکستان میں غیر مرئی ہاتھ ہمیشہ سے بڑے ہی طاقتور رہے ہیں۔
فوج کی کامیابیوں کی بدولت جنرل را حیل شریف کی زیرِ قیادت ا سٹیبلشمنٹ اور غیر مرئی ہاتھ مزید توانا ہو گئے ہیں کیونکہ اپریشن ضربِ عضب ے عزم کی بدولت عوام کی اغلب اکثریت کھلے دل سے فوج کی حمائت کر رہی ہے ۔ رینجرز نے سورش زدہ کراچی میں جس طرح عوام کو سکھ چین اور امن کا تحفہ دیا ہے اس کافطری نتیجہ اس محبت کی صورت میں نکلنا تھا جس نے پاک فوج کو نیا وقار اور عزت عطا کی ہے۔ضربِ عضب کی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ عوام فوجی اپریشن سے کرپشن ک خاتمے کی امیدیں بھی وابستہ کر چکے ہیں کیونکہ انھیں یقین ہو گیا ہے کہ یہاں باریاں لگی ہوئی ہیں جس میں احتساب جیسی کسی چیز کا گزر نہیں ہے۔
میاں محمد نواز شریف کا اپنا مخصوص اندازِ حکمرانی ہے اور اپنے اس اندازِ حکمرانی میں وہ کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے۔ اب اگر ان کے مخصوص گروپ کی اہم وکٹیں گرا دی جائیں گی تو پھر میاں محمد نواز شریف کے لئے بھی کوئی جائے عافیت باقی نہیں بچے گی لہذا وہ اس طرح کے کسی قانونی عمل کی شروعات ہی نہیں ہونے دیں گئے۔مشہور ہے کہ میاں محمد نواز شریف کسی بات کو جلدی سمجھتے نہیں ہیں لیکن اگر کوئی بات ایک دفعہ ان کے ذہنِ نارسا میں سما جائے تو پھر اس سے انھیں ہٹا نا بڑا مشکل ہو تا ہے۔سپریم کورٹ پر حملے کا تاریخی کارنامہ ہمارے سامنے ہے جس میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر قاتلانہ حملے میں چیف جسٹس کو اپنے چیمبر میں چھپ کر جان بچانی پڑی تھی۔
احتساب کا نعرہ سب سے پہلے کراچی کی ابتر صورتِ حال سے پروان چڑھا تھا ۔رینجرز کے اختیارات شہرِ کراچی کو بد امنی،قتل و غارت گری،بھتہ خوری ور اغوا برائے تاوان کے خاتمے کے اعلانات سے شروع ہوئے تھے لیکن جیسے جیسے معلومات منظرِ عام پر آتی گئیں اپریشن کا رخ بھی بدلتا چلا گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی اب وہ شہر نہیں رہا جو ریجرز اپریشن سے پہلے تھا۔اس شہر میں جرائم کے خا تمے کے لئے سب سے پہلے ایم کیو ایم پر ہاتھ ڈالا گیا۔نائن زیرو پر چھا پہ کوئی معمولی بات نہیں تھا لیکن رینجرز نے اس مشکل ترین مرحلے کو بڑے ہی احسن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔عوام کو جب اس بات کو یقین ہو گیا کہ نائن زیرو رینجرز کی دسترس میں ہے تو پھر ان کے اندر خود اعتمادی کے نئے جذبے نے جنم لیا۔انھوں نے خوف کے بت کو توڑ دیا اور رینجرز کے ساتھ مکمل تعاون کا فیصلہ کیا۔
رینجرز اپنے قدم جماتی گئی اور ایم کیو ایم دن بدن دفاعی انداز اختیار کرتی گئی کیونکہ ریجرز سے ٹکر لینا ان کی بساط سے باہر تھا۔ بہتر امن و امان کی خوہش دھیرے دھرے احتسابی تحریک میں ڈھلتی چلی گئی۔ایم کیو ایم کے بعد پی پی پی احتسابی نعرے کا نشانہ بنی ۔ایم کیو ایم کی صفوں سے بے شمار لوگ رینجرز کے لئے وعدہ معاف گواہ بنے جھنوںنے ایم کیو ایم کے جرائم اورکرپشن کی لرزہ خیز کہانیاں بیان کیں جس سے عوام لرز کر رہ گئے۔پی پی پی کی صفوں میں آصف علی زرداری کے دیرینہ دوست اور دستِ راز ڈاکٹر ذولفقار مرزا نے جس طرح آصف علی زرداری کے سیاہ کارناموں کو بیان کیا اس پر عوام مبہوت ہو کر رہ گئے۔ذولفقار مرزا کی آواز اتنی توانا تھی کہ پی پی پی جیسی وفاقی جماعت کی رگوں میں خون منجمد ہو کر رہ گیا۔
اس سارے عرصے میں مسلم لیگ (ن) کراچی اپریشن کی تعریف تو صیح میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتی رہی اور ان دونوں جماعتوں کے خوب لتے لیتی رہی لیکن جیسے ہی اس اپریشن نے پنجاب کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا مسلم لیگ(ن) کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اس نے چیرمین نیب کو کھلم کھلا دھمکی دینے سے تعرض نہ کیا ۔ان کا فلسفہ بڑا سادہ تھا کہ جب تک دوسروں کا احتساب ہوتا رہیگا پمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن جیسے ہی احتساب کی چوٹ مسلم لیگ (ن) کے حکومتی اہلکاروں پڑے گی ہم اسے برداشت نہیں کریں گئے اور شائد یہی وجہ ہے کہ پوری مسلم لیگ (ن) درد سے بلبلا اٹھی ہے۔اگر احتساب پی پی پی اور دوسری جماعتوں کا ہو تو بالکل جائز لیکن اگر حکمران جماعت کا ہو تو پھر شجرِ ممنوعہ۔اسی طرح کی بے ہنگم سوچ نے ہی پا کستانی معاشرے کا ستیا ناس کیا ہوا ہے ۔اب حالت یہ ہے کہ نیب چوراہے میں کھڑی ہے اور اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کرے کیونکہ حکمران جماعت اپنے وزرا کا احتساب کرنے کی اجازت دینے کے موڈ میں نہیں ہے۔،۔
مجھے اچھی طرح سے یاد کہ وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار خان نے چند دن پہلے یہ بیان دیا تھا کہ جس کی دم پر بھی پائوں رکھو وہ چیخنے چلانے لگتا جاتا ہے۔کیا چیرمین نیب کا بیان اسی زمرے میں شمارنہیں ہو رہا کیونکہ جس طرح میاں محمد نواز شریف نے چیخ و پکار شروع کر دی ہے وہ کوئی اور ہی کہانی سنا رہی ہے۔احتساب کے نام پر یوں واویلا کرنا وزیرِ اعظم پاکستان کو زیب نہیں دیتا۔سوال یہ نہیں کہ احتساب کی زد میں کون آتا ہے بلکہ جو کوئی بھی آتا ہے اس کے خلاف بلا تفریق احتساب کا عمل شروع کیا جانا چائیے تا کہ پاکستان کی پہچان ایک ایسے ملک کے طور پر ہو جس میں قانون کی حکمرانی یقینی ہوتی ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ وزیرِ اعظم کے چند قریبی دوست خود کو قانون سے بالا سمجھ رہے ہیں اور وزیرِ اعظم اپنے ان دوستوں کو ہر قیمت پر بچا نا چاہتے ہیں۔
قانون کی یہی جانبداری ہماری تباہی کی ذمہ دار ہے جس سے ہمیں دور رہنا ہو گا۔قانون اندھا ہوتا ہے لہذا وہ اپنے اور غیر میں تمیز کرنے کے وصف سے عاری ہوتا ہے لہذا حکومت کی کوشش ہونی چائیے کہ وہ اندھے قانون کے چہرے پر اپنی پسند کی آنکھیں لگا کر عدل و انصاف کا خون کرنے سے اجتناب کرے ۔قانو ن و انصاف سے اپنے بے پناہ کھلواڑ کے باعث ہم پہلے ہی دنیا میں ایک ایسی قوم کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں جس میں لوٹ کھسوٹ کی کھلی چھٹی ہے اور جہاں پر حکمرانوںکو قانون و انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوئی روائت نہیں ہے۔ یہ کتنا عجیب لگتا ہے کہ اسلامی ریاست ہونے کے باوجود ہم عدل و انصاف کو قائم کرنے سے قاصر ہیں جبکہ دنیا میں اسلا م ہی عدل و انصاف کا سب سے برا داعی ہے۔اس نے عدل و انصاف کے ایسے عدیم النظیر کارنامے سر انجام دئے ہوئے ہیں جھنیں پڑھ کر روح پر وجد و کیف کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔