تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
لال بھجکڑکی حکومت میں ایک شخص نے قتل کردیا۔ جج نے اسے موت کی سزاسنائی ۔جب جلاد قاتل کو پھانسی دینے لگا تو پتہ چلاکہ قاتل کی گردن بہت پتلی ہے اور پھانسی کا پھندا بہت کھلا ۔سبھی پریشان کہ اِس کا کیا حل نکالا جائے ۔ چاروناچار طے ہوا کہ سارا مسئلہ بادشاہ سلامت کے گوش گزار کیا جائے۔ جب بادشاہ سلامت (لال بھجکڑ) کے سامنے مسئلہرکھا گیا تو اُس نے مسکراتے ہوئے کہا”اتنی معمولی سی بات کے لیے میرے پاس آنے کی کیا ضرورت تھی، کوئی موٹی گردن والا ایسا بندہ تلاش کرو جس کی گردن میں پھانسی کا پھندا”فِٹ” بیٹھتا ہو اور اُس کو پھانسی دے دو۔ کچھ ایسی ہی واردات ہمارے مشاہداللہ خاں کے ساتھ بھی ہوگئی ۔وہ بطور وزیر باتدبیر غیر ملکی دَورے پر تھے کہ اُن کے ساتھ ‘ہَتھ” ہوگیا اور نہ صرف یہ کہ ”ممدوح”نے اُنہیں پَرے جھٹک دیا بلکہ وزارت بھی گئی۔
دروغ بَرگردنِ راوی وہ اداسیوں کے جَلو میں ایوانِ وزیرِاعظم سے نکلے اور ”وہ جارہا ہے اپنی وفاکا لُٹاہوا ”گنگناتے سیاسی اندھیروں میں گُم ہوگئے۔ سچی بات ہے کہ ہمیں مشاہداللہ خاں کے ساتھ ہونے والی اِس ”واردات”پر دلی دُکھ ہوا کیونکہ ”مجرم” کوئی اور تھا لیکن پھندا موٹی گردن والے مشاہداللہ خاں کی گردن میں فِٹ ہوگیا۔ یہ بجاکہ شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ چشمِ فلک نے یہ دیکھاکہ سیاسی وعسکری قیادت کے مابین افہام وتفہیم کایہ عالم کہ جیسے ”میں تے ماہی اِنج مِل گئے ، جنویں ٹِچ بٹناں دی جوڑی”۔ قائدین ہر قومی وبین الاقوامی مسٔلے پرہم آہنگ ۔اِن حالات میں مشاہداللہ خاں کو پنڈورابکس کھولنے کی ضرورت نہیں تھی ۔سوال مگریہ کہ ”پنڈورابکس”کھولنے والا کون؟ کیا مشاہداللہ خاں یا کوئی اور؟۔ کیایہ حقیقت نہیں کہ دھرنوں کے ایام میں محترم جنرل احمد شجاع پاشا اور محترم جنرل ظہیرالاسلام کے بارے میں ایسی افواہیں زباں زدِعام تھیں؟۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایسی غلط فہمیاں پیدا کرنے والا تھا کون؟۔
یقیناََ وہی جوتواتر کے ساتھ امپائرکی انگلی کھڑی ہونے کے دعوے کرتارہا ،وہ تھے ہمارے محترم عمران خاںصاحب۔ یہ سوال توخاںصاحب سے پوچھاجانا چاہیے کہ وہ ”امپائر” کون تھاجس کی انگلی کھڑی ہونے کی نوید وہ سونامیوں کو دیتے رہے ۔محترم جاویدہاشمی نے تحریکِ انصاف کی صدارت چھوڑنے کے بعداپنے پہلے انٹرویومیں ہی یہ راز فاش کردیاکہ وہ امپائرکون تھا۔ اُنہوںنے بتایا کہ کپتان صاحب ہر میٹنگ میں کہتے تھے کہ ”وہ ”ہمارے ساتھ ہیں(ہاشمی صاحب نے دونوں کندھوں پرہاتھ لگاکر یہ واضح اشارہ دیاکہ بقول عمران خاں فوجی جرنیل اُن کی پشت پرہیں)۔ مشاہداللہ خاںنے جو کہا، وہی کچھ توپی ٹی آئی کے بریگیڈیئر (ر) سائمن نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا۔بریگیڈیئرصاحب کے دعوے کے مطابق جنرل ظہیرالاسلام کا مطمعٔ نظروزیرِاعظم اورآرمی چیف کے مابین غلط فہمیاں پیدا کر کے اُن کو آپس میں لڑوانا اور پھر دونوں کی چھٹی کروا کے خود حکومت پر قبضہ کرنا تھا۔
مشاہ داللہ خاں نے بھی تو یہی کچھ کہا پھر اگر بریگی ڈئیر سائمن (جو سابقہ فوجی ہیں) کے خلاف تحقیقات نہیں ہو سکتیں تو کیا مشاہد اللہ خاں کے خلاف صرف اِس لیے کہ وہ ”سویلین”ہیں؟۔ مسٔلہ اگرایک وفاقی وزیر کے مُنہ سے نکلے ہوئے غیرذمہ دارانہ الفاظ کاتھاتو اِس معاملے میںبھی مشاہداللہ خاں مجرم نہیں ٹھہرتے کیونکہ کھلے ڈُلے وزیرِ دفاع خواجہ آصف صاحب نے توایک نہیںدو، دوبار جنرل احمدشجاع پاشا اور جنرل ظہیرالاسلام کوموردِالزام ٹھہرایالیکن اُن کے خلاف تادیبی کاررائی توایک طرف ، ایوانِ وزیرِاعظم کی طرف سے اُن کے بیان کی تردیدبھی نہیںآئی۔ یہ بھی طشت ازبام کہ میاں شہباز شریف اور چودھری نثاراحمد نے متعدد باراعلیٰ عسکری حکام کو جنرل ظہیرالاسلام کے دھرنوں میں ادا کیے جانے والے کردار کے بارے میں آگاہ کیا اور میاں شہبازشریف صاحب نے تو دھرنوں کی پشت پر کار فرما ہاتھ کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کامطالبہ بھی کیا۔
لیکن شور اٹھانہ ہا ہاکار مچی ۔مشاہداللہ خاںنے بی بی سی کو دیئے گئے پورے انٹرویومیں کہیں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ خود موقع پر موجود تھے یا اُن کے پاس مکمل ثبوت ہیں۔ اُنہوں نے تو اپنے انٹرویو کی بنیادہی ”سُنی سنائی ”باتوں پر رکھی اوراِس کابَرملا اقرار بھی کیا۔ سبھی جانتے ہیں کہ انٹرویوزکو ”ایڈٹ”کرکے معانی ومفاہیم کو یکسر تبدیل کیاجا سکتاہے لیکن اِس کے باوجودبھی اگرپورے انٹرویومیں کچھ قابلِ گرفت ہے تووہی جس کا خواجہ آصف صاحب پہلے ہی برملااظہار کرچکے تھے ۔اصل بات یہ ہے کہ ”پھندہ”صرف مشاہداللہ خاںکے گلے میں ہی فَٹ بیٹھتاتھا، باقی سب تو”تگڑے”تھے ۔۔۔ بہت تگڑے۔۔
ایوانِ وزیرِاعظم کی طرف سے مشاہداللہ خاں کے بیان کی فوری تردید اور افراتفری میں لیے گئے استعفے کی بنا پر سیاسی وعسکری قیادت میں پیدا ہونے والی غلط فہمیاں دَم توڑ گئیں اور وہ جواِس بیان پر بغلیں بجا رہے تھے کہ اب تماشا ”ہووے ای ہووے” ، اُن کی اُمیدوں پر اَوس پڑگئی ۔الیکٹرانک میڈیاپر بیٹھے اینکر ،ایکرنیاں اور تجزیہ نگاربھی ”ٹھنڈے ٹھار” ہوگئے اوراُن کے پاس چائے کی پیالی پر طوفان اٹھانے کو ”کَکھ” باقی نہ بچا ۔اِس سے پہلے تویہ عالم تھاکہ چیونٹیوں کے بھی پَرنکل آئے اورہر کہ ومہ نے افلاطونی تجزیوںکی آڑھت سجالی ۔تحریکِ انصاف نے دوقدم آگے بڑھ کے سارے معاملات کی تحقیقات کامطالبہ کردیا۔
شاید اُس نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سے سبق نہیںسیکھا۔ کہے دیتے ہیںکہ اگرحکمرانوں نے (عقلمندی کاثبوت دیتے ہوئے)کوئی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے ڈالی توپھر سونامیے اورسونامیاں گلی گلی یہ گاتے پھریں گے کہ ”جو بچا تھاوہ لُٹانے کے لیے آئے ہیں”۔ اُنہیں یہ یادرکھنا ہوگا کہ جس تواترسے یہ خبریںیاافواہیں پھیلتی رہیں اورتاحال پھیل رہی ہیں، اگر اُن میںدَس فیصد سچائی بھی ہوئی توتحریکِ انصاف کے پلّے کچھ باقی نہیںبچے گا۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر