counter easy hit

مجھے انصاف نہیں چاہیے

Justice

Justice

تحریر: نسیم الحق زاہدی
تھانے سارے ایک جیسے ہوتے ہیں وڈیروں ، جاگیرداروں بااثر افراد کی ذاتی عدالتیں جہاں پر وہ بیٹھ کر اپنی مرضی کے فیصلے صادر فرماتے ہیں اس بات کا احساس ایک بار پھر سے چند روز قبل تھا نہ محرر کے رویے سے ہوا ہم درخوست گزار تھی تھانے کا ماحول اور محرر کے انداز تخاطب سے لگ رہا تھا کہ ہم عادی مجرم ہیں چند دن پہلے پاکستان کے نامور صحافی کالم نویس اور معروف شاعر خالد مسعود خان صاحب کا ایک کالم بعنوان ”یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ” پڑھنے کو ملا انہوں نے حقائق کی ایسی تصویر کشی کی کہ کوئی 10 بار کالم پڑھا لکھتے ہیں ”غلام رسول نے اپنی بیٹی کے اغواء پر تھانے جا کر پرچہ درج کروانے کی کوشش کی مگر اغواء کا نام سن کر تھانیدار نے پہلے تو پرچہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔

لیکن زیادہ شور مچانے پر یہ کیا کہ فون کر کے ملزم کو بتایا کہ غلام رسول باقاعدہ گستاخی پر اتر آیا ہے اور تھانے میں پرچے کے لئے شور مچا رہا ہے پھر تھانیدار نے بااثر ملزم کے کہنے پر غلام رسول کو پولیس کی زبان ڈنڈے سے سمجھایا اسی دو ران ملزم کے کارندے تھانے آگئے انہوں نے غلام رسول کا اُٹھایا اور ڈیرے پر لے گئے وہاں غلام رسول کی بیوی اور دو بیٹیاں بیٹھی ہوئی تھیں غلام رسول کے دونوں بیٹے ان کے ہاتھ نہیں لگے ڈیرے پر غلام رسول کے سامنے اس کی بیوی اور بیٹیوں کی بے حرمتی کے گئی غلام رسول اگلے روز مع اہل و عیال گائوں سے کہیں چلا گیا تیسرے دن ان کے بیٹوں نے ملزم کو کاربین کا فائر مار کر قتل کر دیا اور خود تھانے پیش ہو گئے۔

Court

Court

مزید لکھتے ہیں میرے پاس ایسی ایک دو نہیں 70 سٹوریاں ہیں ایسی کہانیوں کے ہوتے ہوئے لوگ پوچھتے ہیں کہ آخر لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی ضرورت کیا ہے؟ لوگ خود ہی مدعی، گواہ اور جج کیوں بن جاتے ہیں؟ لوگ اپنی عدالتیں کس لئے لگاتے ہیں؟ لوگ اپنی عدالتیں تب لگاتے ہیں جب ان کو ریاستی عدالتوں پر اعتبار نہیں رہتا جب ریاستی عدالتیں بے مصرف ہو جاتیں ہیں ان سے انصاف کی اُمید ختم ہو جاتی ہے اور جب ریاستی عدالتوں میں عدل و انصاف کی فراہمی کے بجائے عدالت و انصاف کا قتل عام ہوتا ہے ”کالم کا ایک ایک لفظ سچ اور حقیقت کا آئینہ دار ہے بڑ ا مشہور واقعہ ہے ایک مرتبہ عہد عمر میں مدینے میں زلزلہ آیا تو آپ نے درہ زمین مارا اور کہا زمین ہل کیوں رہی ہے؟ کیا عمر تجھ پر انصاف نہیں کرتا۔

اُس کے بعد مدینے میں کبھی زلزلہ نہیں آیا میرے آقا کر یم ۖ کا فرمان ہے جس معاشرے میں قانون امیر کے لئے کچھ اور ، اور غریب کیلئے کچھ اور ہوتا ہو وہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے فرمان علی ہے کہ کفر پر قائم معاشرہ چل سکتا ہے مگر ناانصافی پر قائم معاشرہ نہیں۔ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ درست فرماتے ہیں کہ ملک میں تھانے کروڑوں میں بکتے ہیں ملک اس طرح نہیں چلا کرتے بات تو سچ ہے قبل اسلام کی طرح آج بھی ہر طاقتوار ہر قسم کے حقوق کا مالک ہے اب احساس ہوتا ہے کہ ہر شریف بندہ تھانے میں اپنے ساتھ زیادتی ہو نے کے باوجود جانے سے کیوں ڈرتا ہے۔

ایک دوست عرفان کی کریانہ کی دوکان ہے وہاں پر اکثر بیٹھنے کا اتفاق ہوتا ہے پچھلے دنوں ایک صاحب انڈے لینے کے لئے آئے انڈے لینے کے بعد فرمانے لگے کہ انڈوں کا سائز چھوٹا ہے تمہارا چالان ہوگا باہر سٹرک پر مجسٹریٹ صاحب گاڑی میں تشریف فرما ہیں یا تو آپکی دوکان سیل ہوگی یا پھر 5000 روپے اتنے کھلے اور بے باک انداز میں رشوت مانگ رہے تھے کہ جیسے یہ کوئی فرض یاسنت ہوتی ہے جسے اگر پور ا نہ کیا گیا تو گناہ کبیرہ ہو جائے گا۔

Threats

Threats

اسی طرح ایک دوست کو اس کے بااثر چاچے اپنا حق مانگنے پر قتل اغواء جیسی سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے تھے اس نے اعلی احکام کو درخواست بذریعہ پوسٹ دیں چند دنوں کے بعد متعلقہ تھانے سے کسی انویسٹی گیشن سب انسپکٹر کی کال آئی دوست خود انصاف کے لئے تھانے میں پہنچا مگر معلوم ہوا کہ صاحب تو میٹنگ میں ہیں۔ دو، تین دن صاحب کو کال کی تو صاحب سے غصے فرمانے لگے مل لیں گے کیا ہو گیا ملنے کے بھی طریقے ہوتے دوست مایوس ہو کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا اب دوبارہ اعلیٰ احکام کو درخواست دے رہا ہوں کہ ”مجھے انصاف نہیں چاہیے” ایسی ہز ار وں داستانیں ہیں کہ انصاف نہ ملنے پر غریب نے خود سوزی کر لی یا مجرم کو قتل کرکے فرار ہو گیا یا خود جا کر تھانے میں پیش ہوگیا۔

اس کالم کو تحریر کرتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے کیوں کہ بزرگوں کا قول ہے کہ پولیس والوں کی نہ دوستی اچھی نہ دشمنی بات اعلیٰ احکام کی توجہ کروانا ہے کہ خدادار تھا نہ کلچر کو بدلئے مظلوم اور ملزم میں کوئی فرق ہونا چاہیے اپنے حقوق کے حصول کے لئے جب بھی کسی ادارے میں جانے کا اتفا ق ہوتا ہے تو اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے اور خالق کائنات سے شکوہ بھی ہوتا ہے کہ یا تو ہم کو پیدا ہی نہیں کرتا اور کیا اچھا ہوتا کہ کوئی جاگیر دار ، وڈیرہ ، سردار ، چوہدری کے رشتے دار ہوتے اور انصاف ہمیں ملنے کے لئے خود ہمارے در پر آتا اور ہم انصاف کے نام پر مظلوموں ، لاچاروں ، غریبوں کا استحصال کرتے سچ غربت سے بڑا کوئی جرم نہیں اور غریب سے بڑا کوئی مجرم نہیں۔۔۔

میں انقلاب پسندوں کے اک قبیل سے ہوں
جو حق پہ ڈٹ گیا اُس لشکر قلیل سے ہوں
میں یوں ہی دست و گریباں نہیں زمانے سے
میں جس جگہ کھڑا ہوں کسی دلیل سے ہوں

Naseem-ul-Haq-Zahidi

Naseem-ul-Haq-Zahidi

تحریر: نسیم الحق زاہدی

Justice

Justice