تحریر: ریاض احمد ملک بوچھال کلاں
جب کسی قوم کے برے دن آتے ہیں اس قوم کے لیڈر عظمت کردار کو کھو بیٹھتے ہیں انصاف کی کرسی پر بیٹھے منصف ایسے ایسے فیصلے صادر فرماتے ہین جن کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے لیڈر اپنے آپ کو عقل مند اور عوام کو بیوقوف سمجھنے لگتے ہیں جب ایسا وقت آ جائے تو سمجھو کہ بربادی اس قوم کو اپنی لپیٹ میں لینے والی ہے سیاست دراصل عبادت کا دوسرا نام ہے مگر ہمارے سیاستدانوں کے قریب سیاست عوام کو بیوقوف بنانے ہیر پھیر کا نام ہے یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں پارٹیاں بدل کر وہی چہرے منظر عام پر آ جاتے ہیں سابقہ ادوار کا جائزہ لیں تو مشرف دور میں جب مشرف نے نئے چہرے لانے کے لئے گریجو یشن کی شرط عائد کی تو جعلی ڈگریاں لے کر وہی چہرے منظر عام پر آئے جو بچ گئے۔
ان کے بیٹے اور بھتیجے اسمبلی میں جا پہنچے کریپشن ،،،،،،،،؟ پھر اس وقت اسمبلی میں نئے ناتجربہ کار لوگ جب اسمبلی میں آئے تو ملک کو فائدہ پہنچا یا نہیں البتہ کریپشن کو فروغ ضرور ملا اس دور مین مدارس کو خوب نشانہ بنا کر دہشت گردی کو ہوا ملی امریکہ اور غیر مسلم ممالک کو خوش کرنے کے لئے انہوں نے کیا کیا گل کھلائے عوام نے انہیں جس طرح مسترد کیا اس کی مثال نہیں ملتی اس زمانے میں ایک بات مشہور ہوئی تھی کہ انڈین وزیراعظم کو خوش کرنے اورکا مطالبہ مانتے ہوئے مساجد کے سامنے بندے ماترم کا ترانہ درج ہونے والا تھا جو مشرف حکومت کی تباہی کا سبب بنا کہتے ہیں آواز خلق نقارہ خدا ہوتا ہے گو یہ بات تصدیق شدہ تو نہیں مگر اس بات کے پیچھے کوئی نہ کوئی راز ضرور تھا جو ان سیاستدانوں کو اپنے گرو سمیت لے ڈوبا میرا مقصد کسی کو ڈس ہارٹ کرنا ہر گز نہیں مگر حقیقت ہے جو خود بخود سامنے آ جاتی ہے۔
موجودہ حالات میں جب تحریک انساف کو زمین سے اٹھا کر آسمانوں تک لانے والے ہاتھوں نے کام شروع کیا تو مسلم لیگ ن سمیت پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں سے پنچھیوں نے اڑ کر تحریک انصا ف کے شجر پر بیٹھنا شروع کر دیا اس وقت یہی سمجھا جا رہا تھا کہ ہر صبع کا سورج تحریک انصاف کے اقتدار سے ہی شروع ہو گا مگر شائد قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اس سورج کو طلوع ہونے سے قبل ہی غروب کا سامنا کرنا پڑا اس کی وجہ بھی یہی لوگ تھے جنہیں پارٹیاں بدل کر اقتدار میں آنے کا شوق رہا ہے اور وہ اسی شوق کی خاطر شائد اس بار بھی بھول گئے اور اب یہ واویلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اس پارٹی میں کریپٹ لوگوں کو بھیجا گیا ہے جن کے اقدامات کی وجہ سے نواز شریفحکومت کا فائدہ اور ان کی پارٹی یعنی تحریک انصاف کو نقصان پہنچا حقیقت تو یہ تھی کہ ان کو دھرنوں کا طول لے ڈوبا اس ڈھرنے میں جس انداز سے گفتگو اور جو کام ہوئے عوام نے انہیں قبول نہیں کیا ملک کو تو نقصان پہنچایا ہی گیا دہاڑی دار لوگوں نے ان دھرنون کے دوران کیسے گزارہ کیا ہو گا عمران خان اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔
ابن اوقت جیسے سیاستدان ان کے گرد منڈلاتے نظر آئے اور یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ خان صاحب نے ورلڈ کپ جیتا ورلڈ کپ جیتنا اور حکومت کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے پھر اس ورلڈ کپ کو ہی لے لیجئے اس میں عمران خان کی کیا کارکردگی تھیمیچ تو ہم ہار چکے تھے پاکستانی عوام کی آںہوں اور سسکیوں سے نکلی دعائیں جب فلک پر پہنچیں تو قدرت نے میاں داد کو ہمت دی اور وہ چھکا جو تاریخی تھا لگا کر میچ کا پاسا پلٹ دیا یہ کارکردگی عوام کی دعائوں کے بعد میاں داد کی تھی عمران خان نے اس میچ میں کیا کارکردگی دکھائی اس وقت عوام کی چیخیں نکل رہی تھیں اور لوگ ہاتھ اٹھا کر رب زوالجلال سے اپنی فتح کی دعائیں مانگ رہے تھے اس کے گرد منڈلانے والے ابن الوقت سیاستدانوں نے ان دعائوں کو اور میاں داد کا وہ چھکا جسے ایک تاریخی حیثیت ملی تھی پس پشت ڈال کر ساری کارکردگی عمران خان کے کھاتے ڈال دی اب موجودہ حکومت کا بھی یہ حال کہ وہ اپوزیشن کو بے جان دیکھنا چاہتی ہے اب عمران خان تجر بہ حاصل کرنے کے لئے بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کریں پختونخواہ کی حکومت اگر انہیں حادثاتی طور پر مل گئی ہے تو وہ وہاں ایسے حکومت کریں کہ عوام اگلے الیکشن میں انہیں اسلام آباد تک پہنچا دی میاں نواز شریف جسے اب بے تاج بادشاہ کہا جاتا ہے۔
پہلے پنجاب کی حکومت کی اور کارکردگی کی بنا پر وہ وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچ گئے وہ بھی ان کی نقش قدم پر چلیں اور اپنے صوبے کے عوام کی احساس مرحومی کا خاتمہ کریں ناچ گانے تو بعد میں بھی ہوتے ہی رہیں گے ان کی کارکردگی یو ںہو کہ میاں برادران ان کی جگہ اور وہ میاں برادران کی جگہ ہوں یہ ان کے لئے مشورہ ہے مگر یہ تو شائد اپنے حصار سے نہ نکلیں اور نعرہ لگائیں کہ ہم راہزنوں سے انصا ف مانگتے ہیں موجودہ حکومت کی کمزوری بھی یہ ہے کہ وہ کارکنوں کو اہمیت نہیں دیتے جس کا عمران فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
اس وقت حکومتی کارکن حکومت سے مایوس نظت آ رہے ہیں کیونکہ انہیں بھی موجودہ حکومت میں کہیں سے دور تک انصاف ملتا نظر نہیں آ رہا اس کے باوجود اقتدار کے نشے میں حکمران بھی من پسند لوگوں کے سریلے گیٹ سن کر اپنا من راضی کر لیتے ہیں مگر کارکنوں کی بے بسی پر توجہ نہیں دیتے صرف دعوئوں پر ہی اکتفادہ ہو رہا ہے اور مسلم لیگ ن کے کارکن بھی انصاف وہ بھی راہزنوں کے دیس میں مانگتے نظر آ رہے ہیں۔
تحریر: ریاض احمد ملک بوچھال کلاں
03348732994
malikriaz57@gmail.com
riaz.malik48@yahoo.com