تحریر :وقارانساء
جب بھی کوئی تکلیف دہ بات یا واقعہ ہوتا ہے تو چند دنوں کے لئے اس کا رد عمل دیدنی ہوتا ہے اس کے بعد گزرتا ہر دن اور ہر لمحہ جیسے اس کی شدت میں کمی لانے لگتا ہے –روزمرہ کے سلسلے پھر سے رواں دواں ہو جاتے ہیں-ایسے ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ دماغ سنسنا اٹھتا ہے-ہر واقعہ کے بعد لگتا ہے اس سے برا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا-
ملازموں کو کسی کو تاہی کی سزا ان کے اعضاء کاٹ کر اور جلا کر دی جاتی ہے –معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی اور مار پیٹ عام سی بات سمجھی جاتی ہے بے حسی اور سفاکی اتنی کہ عام غریب شہری کیڑے مکوڑے لگتے ہيں –میڈيا کے توسط سے اتنے واقعات سامنے آتے ہیں کہ دل کانپ جاتا ہے-انسان شیطان کا روپ دھار لیتے ہیں
کسی مظلوم کی کوئی شنوائی نہین ہوتی – عورتوں بچیوں مزارعوں اور ملازموں سے برا سلوک کرنے والے قانون کے شکنجے سے دور کیوں؟ وجہ مجرموں کی پشت پناہی ہے –پھندہ ان کے گلے میں لگنے کی بجائے عدل کے گلے میں کیوں لگ جاتا ہے؟ مظلوم عدل کا تقاضہ ہی کرتے رہ جاتے ہیں ليکن عدل کا جنازہ نکل جاتا ہے-وہ مر جاتا ہے اور برائی کی جیت ہو جاتی ہے
معاشرے ھميشہ قانون سے ہی چلتے ہیں-اخلاقيات کے فقدان نے برائيوں کو جنم دیا ہے سماجی رابطے کی بڑی ویب سائیٹ فيس بک کو شيطان خصلت بد فطرت انسان اپنی ذہنيت کی گندگی کے لئے استعمال کرتے ہیں- اور اس کا شکار بچیوں اور نوجوان لڑکیون کو بناتے ہیں –راولپنڈی میں ايک ایسا گینگ پکڑا گیا جو فيک فيس بک آئی ڈی بنا کر لڑکیوں کو جھوٹی محبت کے جال مين پھنساتے ہیں اور پھر ان کو بلا کر شیطانی کھيل اور فعل کے مرتکب ہوتے ہیں بعد ازاں تصویروں اور ویڈيو کے ذریعے بلیک ميل کرتے ہیں- بمشکل تمام یہ بات اور یہ مکرہ کردار سامنے آہی گئے ہیں اور کچھ پولیس کی غيرت نے آنکھ کھولی ہے-
تو حکومت کے لوگ ان کو آزاد کروانے کے لئے پولیس پر دباؤ ڈال رہے ہیں- ان ضمير فروشوں کو آپ کیا نام دیں گے؟جن کے گھروں میں ماں بہنیں اور بیٹیاں تو ہوتی ہیں-اس کے باوجود وہ دوسروں کی بہنوں بیٹیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ناقابل توجہ جانتے ہیں اس گینگ سے نہ صرف راولپنڈی بلکہ دوسرے شہر اور علاقے بھی متاثر ہیں-
کیا يہ لوگ قابل سزا نہیں؟ جو انسانیت کے نام پربدنما دھبہ ہی نہیں-غلیظ ناسور ہیں- اگر ان کو سزاملے تو دوسرون کے لئے باعث عبرت ہو-يہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی کئی ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کیونکہ مجرم قانون کی گرفت میں نہیں آتے-آئیں بھی تو کیسے ؟ان برائیوں کو پروان چڑھانے کا ٹھيکہ حکومت کے عہدہ داران نے اٹھا رکھا ہے حکومت کے عہدے دار ہی ان کو چھڑوانے کے لئے محکمے پر دباؤ ڈالیں تو اس سے کیا سمجھا جائے؟
جرم کو پنپنے دیا جاتا ہے اس کا گلہ گھونٹا نہیں جاتا تویہ تو پھیلے گا –ویسے بھی برائی تیزی سے پھیلتی ہے اس ہی وجہ سے اکثر والدین فیس بک کو بری نظر سے دیکھتے ہيں –حالانکہ يہ چيزیں ترقی کے لئے ہیں ان کو تعميری مقاصد کے لئے استعمال کیا جانا چاہیے
پست ذہنيت اس کو غير ضروری مقاصد کے لئے استعمال کرنے لگتے ہیں-بغير کسی واسطے کے میسجز لکھ دئیے جاتے ہیں- ذی شعور تو ان کو فضول خیال کرتے ہوئے اپنے کام پر دھیان دیتے ہیں جب کہ نادان بچیاں ان کے شکنجے میں آجاتی ہیں یہ پھندہ آخر کب تک مجرموں کی بجائے عدل کے گلے میں لگتا رہے گا؟؟؟
تحریر :وقارانساء