تحریر:لقمان اسد
عجب خود فریبی میں مبتلا ہمارے پالیسی ساز و رہنما ہیں کہ قرض کی مے پینے میں ہی جنہیں کامل راحت اور دائمی سکون میسر ہے قرض کے اس مرض سے نجات کا شاید وہ کوئی راستہ ڈھونڈ ھ نکالنے کی حتمی سعی سے گریزاں اس لئے ہیں کہ اُنہیں خود اپنے سکون کے غارت ہونے کا اندیشہ لاحق ہے ہم اس مادر گیتی کے وہ مظلوم و حقیر انسان ہیں کہ جس دھرتی پر معصوم بچے بھی اپنے جنم کے ساتھ قرض کی بیماری ورثہ میں اپنے جنم پر لاتے ہیں یہی پیدا ہونے والے بچے جب جوان ہوتے ہیں اور چند ایک ان میں سے وہ جو وسائل کی دستیابی کے سبب پڑھنے لکھنے کے ہنر سے مستفید ہو پاتے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرہ میں پڑھنے لکھنے کا حق بھی صرف چند مخصوص طبقات تک ہی محدود ہے 67 برسوں میں وطن عزیز کے باسیوں کو ہماری اشرافیہ یکساں نظام تعلیم اور نصاب تعلیم مہیا کرنے میں بھی بعینہِ اسی طرح ناکام ہے
جس طرح مساوی انسانی حقوق اور انصاف مہیا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ٹھہری ہے اس المیئے کا پس منظر محض یہی ہے کہ حکمران طبقہ کے مشاغل دوسری طرح کے ہیں خود احتسابی کی حس سے وہ بے بہرہ ہیں اور احتساب نام کا کوئی قانون یہاں وجود نہیں رکھتا ان میں سے چنداں یا بعضے نہیں بلکہ اکثریت اُن کی ہے جو سیاست کو ایک نفع بخش کاروبار اور حکومت کو ایک منافع بخش صنعت کے لیتے ہیں وہ نوجوں جو قرض کے مرض کا ورثہ لیکر وطن عزیز میں جنم لیتے ہیں جب وہ اپنے شعور کی عمر میں قدم رکھتے ہیں تب وہ یہ خیال کرتے ہیں
جو کچھ ہمیں نصاب میں پڑھایا گیا ہمارے اساتذہ نے ہمیں جو کچھ پڑھایا یہاں تو اُس کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا حکمرانی اور نظام مملکت کے متعلق جو کچھ ہم نے اپنے نصاب کی کتب میں پڑھا ہمارے ملک میں تو یکسر اُس کے اُلٹ ہے نہ بیروز گاری کے خاتمہ کیلئے کوئی حکومتی پلان ،نہ انصاف کی جلد اور ممکن فراہمی کی کوئی حکمت عملی ،نہ عوامی حقوق کی پاسداری کا کوئی ضابطہ اخلاق اور نہ مذہبی فرقہ واریت کی روک تھام کیلئے کوئی جامع منصوبہ بندی حکومتی لائحہ عمل میں شامل ہے انہی میں سے کچھ نوجوان جو اپنی صلاحیتوں اور بے پناہ محنت کے بل بوتے پر حکومتی سکالر شپ کے حق دار ٹھہرتے ہیں کہ جن کا نصیب جاگتا ہے وہ بیرون ممالک کی یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے عازم سفر ہوتے ہیں دنیا بھر سے حصول تعلیم کی خاطر ان یونیورسٹیز میں بے شمار طلاب اپنے اپنے ممالک سے آئے ہوتے ہیں
جب کبھی پاکستان کے حوالے سے وہاں اُن کے درمیان بحث چھڑتی ہے تو دوسرے ممالک کے طالب علم پاکستانی طلبا سے کہتے ہیں آپ کا ملک تو بے پناہ مقروض ہے لیکن آپ کے حکمرانوں کے دنیا کے بیشتر ممالک میں صنعتی ایمپائر اور بڑے بڑے کاروبار ہیں ،جائدادیں ہیں ،بنگلے اور محلات ہیں دنیا کے بیشتر ممالک میں اُن کے بنک بیلنس ہیں اس تضاد کی وجہ کیا ہے ؟ ظاہر جب بے جا تاویلوں اور بے جا دلیلوں سے کام نہیں چلتا تو مجبوراً وطن عزیز کے طلبا ء کو اپنے حکمرانوں کی حقیقی آپ بیتی سے پردہ اُٹھانا پڑتا ہے پھر وہ اُنہیں بتلاتے ہیں اور تفصیلاً بیان کرتے ہیں کہ تخت حکمرانی پر جلوہ افروز ہونے سے پہلے کس کی کیا حیثیت تھی اور آج وہ کیا سے کیا بنے پھرتے ہیں کل تک جو کریانہ کی دکان اور لوہے کی فیکٹری تک سلیقے سے چلانے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے
آج وہ وطن عزیز میں سیاہ و سفید کے مالک ہیں قوم کی تقدیر سے کھیلنا گویا اُن کا مشغلہ ٹھہرا ہے پھر وہی طلبا وطن عزیز کے طلبا سے سوال کرتے ہیں آخر کب تک تم اپنی دھرتی اور اپنے ساتھ ہونے والی یہ کھلی ناانصافیاں اور ظلم برداشت کرتے رہوگے ؟ تم ایسے ظلم ،ظالموں اور ایسے نظام کے خلاف بغاوت کیوں نہیں کرتے ؟ یقیناً اس سوال کا جواب شرمندگی کے ماسوا اُن کے پاس کچھ نہیں ہوتا وہ اپنے اندر جھانکتے ہیں دل ہی دل میں اپنے آپ سے گویا ہوتے ہیں کہ ہم تو مقروض ہی پیدا ہوئے اورشاید مقروض ہی موت کی وادی میں اُتارے جائیں وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ اپنے ساتھی طلبا کو ہم یہ سب کچھ کیسے بتائیں کہ امریکہ کی بے لوث محبت میں گرفتار ہمارے ملک کے حکمران طبقہ نے ہمیں دیار غیر میں کسی کے سوالات کے جوابات دینے کے قابل نہیں چھوڑا ہم تو اُس دھرتی سے آئے ہیں
جہاں خود کش بمباروں کی تربیت گاہیں گویا ایک مکمل سسٹم کے طور پر اپنا وجود قائم کر چکی ہیں اور اُن تربیت گاہوں کے سر پرستوں کو باقاعدہ طور پر تحفظ حاصل ہے ہم اُس دیس سے تعلق رکھتے ہیں کہ جہان کی پارلیمنٹ ڈرون اٹیک کے خلاف قرار دادیں منظور کرتی ہے لیکن جس دن اور جس لمحہ ہماری پارلیمنٹ یہ قرار دا د منظور کر رہی ہوتی ہے عین اُسی وقت ہمارے ٹی وی چینلز ہماری دھرتی پر ہونے والے نئے ڈرون حملے کی خبر بریک کر رہے ہوتے ہیں وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ ہم اپنے کلاس فیلوز اور ہم جماعتوں کو کس منہ سے بتائیں کہ ہمارے حکمرانوں اور رہنمائوں میں ایسے شیر دل بھی شامل ہیں جو سر عام اجتماع عام میں یہ کہتے ہیں کہ ”ناپ تم بھجوائو بوری کا انتظام ہم کئے دیتے ہیں
ہم تو وہ بدقسمت قوم ہیں کہ جن کے مذہبی رہنما ئوں تک کو ٹی وی چینلز پر نمودارہونے کیلئے خواتین سے میک اپ کرانا اولین ترجیح ہوتی ہے وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ جب ملکی وقار دائو پر لگا ہوتا ہے ،جب ملکی سلامتی کو خطرات درپیش ہوتے ہیں اور جب دشمن کو للکارنے کا وقت ہوتا ہے تو ہمارے حکمران بشمول اپوزیشن رہنما اپنے ذاتی کاروباری امور نمٹانے میں مصروف ہوتے ہیں یا قومی اداروں کی نجکاری کے شغل میں محو یہ افسانہ نہیں نہ کسی گزرے عہد کی کہانی بلکہ یہ حقائق ہیں اور عصر حاضر کا بہت بڑا المیہ بھی مگر کون بتلائے اور کسے کوئی جاکر کہے کہ جو چال ہم چل رہے ہیں اُس کا انجام بھیانک ہی محض نہیں بلکہ بدترین ہے
تحریر : لقمان اسد