کہ چلو کسی نے تو آئین پاکستان کی پاسداری کی کسی نے تو میڈیا کے مداریوں کولگام ڈالی کوئی تو نظریہ پاکستان کا وفادار نکلا۔۔۔
مگر دل نے ساتھ یہ بھی سوچا کہ کیا اب یہ سب اتنا مفید ہے کہ جب یہ بے حیا تہذیب کا بیٹا “میڈیا “اٹھارہ بیس برس کاکڑیل جوان ہو چکا؟
ان اقدامات سے کوئی دیر پا اثر اب ہو گا کہ جب امریکا اسٹین فورڈ یونی ورسٹی کے پروجیکٹ کے طور پر اربوں روپے پرائیویٹ میڈیا میں جھونک چکا
کیا ؟
اب کچھ ہو سکے گا کہ جب خبر تفریح اور تعلیم کے نام پر پچھلے اٹھارہ برسوں میں لا دینیت نئی نسل کی گھٹی میں ڈالی جا چکی؟
اب جب کہ میری بچیاں جینز کو اپنا کلچر سمجھ کر قبول کر چکیں ، جب میری نئی نسل کی نظر میں اخلاقیات ایک بے کار چیز بن چکیں ،جب وہ انسانی رشتوں اور جذبوں سے دور ہو چکے جب “ہم ٹی وی “اور دیگر خدا بیزار ڈرامہ نگاروں کی فوج نے ایک ایجنڈے کے تحت میرا سارا اثاثہ لوٹ لیا ،جب یہ چینلز معاشرہ میں اپنا طاقتور حامی حلقہ پیدا کر چکے جب وہ ججوں جرنیلوں جرنلسٹوں میں لابنگ کے ذریعہ حامی اور نیٹ ورک بنا چکے کیا اب ان فیصلوں کا کوئی دیرپا اثر ہو سکے گا؟ کیا کوئی اگلی عدالت انہیں معطل نہیں کر دے گی ؟بلکہ خود عوام میں اس کے حامی کھڑے نہ ہو جائیں گے۔۔۔؟
آہ مجھے وہ درد مند انسان کبھی بے طرح یاد آتا ہے جو برسوں پہلے میڈیا کے اس سونامی کو دور سے اٹھتا دیکھ کر تڑپ اُٹھا تھا اس کے سامنے بند باندھنے کی کوشش مین اپنی بڑی نوکری سےبھی گیا اور اپنے کروڑوں روپے بھی ڈبو بیٹھا اور اسلام پسند سرمایہ داروں اور قیادتوں سے ملا متبادل منصوبے پیش کئے
انفاق کو بس مسجد و مدرسہ اور یتیموں اور بیواوں کا حق سمجھنے والوں تک پہنچا اور انہیں دردمندی سے سمجھایا کہ معاشرہ کی کایا کلپ ہونے جا رہی ہے سوسائٹی کی صدیوں پرانی اعلی اقدار زمیں بوس ہو جائیں گی میرے پاس متبادل منصوبہ ہے تجربہ ہے بس سرمایہ فراہم ہو جائے تو ایک محاذ کھڑا ہو سکتا ہے ہم مقابلہ کر سکتے ہیں وہ اس وقت بولا تھا کہ اس تہذیبی مقابلے کا اغاز بس اتنی رقم سے بھی ممکن ہے جتنی مالیت کے آپ گھروں میں رہتے ہیں ایسے چند صاحب خیر لوگ کافی ہیں ۔۔۔۔
مگر نہیں
ترجیحات کی ترتیب
آہ ترجیحات کی ترتیب 😔😔
اور پھر وہ مسلمان سرمایہ داروں کے رویوں سے لڑتے لڑتے تھک گیا بیٹھ گیا اس کی کوششیں قصہ پارینہ ہو گئیں ۔۔۔
اب یہ سونامی سب بہا کر لے جا چکا اب بس جھوٹی اور سطحی امیدوں کا کاروبار کرنے والے باقی ہیں یا پھر وہ جو اپنی ذاتی محنت توجہ اجتماعیت اور دعاوں سے اپنی اگلی نسلوں کو بچا لیں گے۔۔۔
جسٹس صاحب!
آپ کا شکریہ مگر اب دیر ہو چکی
پُلوں کے نیچے سے پانی بہہ چکا
قافلہ لُٹ چکا!
(مجھے بے کار کی امیدیں دلانے اور مشورے دینے والوں کا پیشگی شکریہ)
ایک تصویر انٹر نیٹ پر گردش کر رہی ہے جس میں ہائیکورٹ کے جج بننے سے پہلے جناب جسٹس شوکت صدیقی ایک وکیل کی حیثیت سے گورنر پنجاب کے قتل کے الزام میں گرفتار ممتاز قادری کو گلے لگا کر چوم رہے ہیں۔ اس تصویر کو دیکھ کر آپ کے ذہن میں کیا تاثر ابھرتا ہے برائے مہربانی ضرور نیچے کمنٹس دیں۔۔
یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی ممتاز قادری سے ملنے سے پہلے مذہب کی پیروی کرتے تھے یا بعد میں
#خود کلامی۔۔۔زبیر منصوری