اسلام آباد ;ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے جوڈیشری میں مداخلت کے الزامات پر تقسیم ہوگئے ہیں ۔سندھ ہائی کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز نے الزامات سچ ثابت ہونے پر ان کی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے،تاہم لاہور اور پشاور ہائی
کورٹ بار ایسوسی ایشنز نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج کی سطح پر ایسے الزامات پر تنقید کی ہے۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضیٰ نے اس معاملے کی تحقیقات کیلئے ایک اعلی سطحی کمیشن کا مطالبہ کیا ہے ،انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس سطح کے معزز جج کی جانب سے الزامات درست ثابت ہوگئے تو عام انتخابات 2018 متنازع ہوجائیں گےا ور عالمی برادری انتخابی نتائج قبول نہیں کرے گی ۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنی ایگزیکٹو کمیٹی کا ہنگامی اجلاس 27 جولائی کو طلب کیا ہے ۔جہاں مستقبل کی حکمت عملی طے کی جائے گی ۔دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشنز کلیم احمد خورشید کاکہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج کی جانب سے الزامات انتہائی سنگین ہیں ۔سپریم کورٹ بار اسے نظر انداز نہیں کرسکتی وکلا کی سب سے بڑی باڈی کے صدر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلایا ہے۔ کمیٹی مذکورہ معاملے پر موجود ہ اور مستقبل کیلئے غور کرے گی۔ کامران مرتضی کایہ بھی کہنا تھا کہ ایک اعلی سطح کے پارلیمانی کمیشن کو بھی اس معاملے
کی تحقیقات کرنی چاہیئیں۔کامران مرتضیٰ کاکہنا تھا کہ یہ کوئی عام الزامات نہیں ہیں ،ہائی کورٹ کے حاضر سروس جج ملک کی اول ایجنسی کیخلاف الزامات لگارہے ہیں جس کی تحقیقات ہونی چاہیئیں۔اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھایا جائے گا کہ کیسے ہماری ایجنسی لوکل سیاست میں آرہی ہے۔اس لیے ایجنسی کو آگے بڑھ کر ان الزامات کو غلط ثابت کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بار کونسل اس معاملے کو اگلے ہفتے اٹھا کر مستقبل کا لائحہ عمل بتائیگی ۔سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد سلیم منگریو نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس ماضی کی مثالیں ہیں کہ جب ججز نے کھلے عام تسلیم کیا کہ ان سے ایجنسیوں نے رابطے کیے اور جسٹس نسیم حسن شاہ اس کی خاص مثال ہیں ۔