تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
عبداللہ بن عمرو عاص سے کسی نے دریافت کیا کہ مشرکین مکہ نے رحمتِ دو جہاں ۖکے ساتھ سب سے سخت ترین بد سلوکی کی تھی وہ بتائیں تو اُنہوں نے کہا فخرِ دو جہاں ۖ خانہ کعبہ حطیم میں نماز پڑح رہے تھے کہ کافر عقبہ بن ابی معیط وہاں آ گیا۔ اُس نے آتے نبی کریم ۖ کی گردن میں چادر کو بل دینے لگا وہ ظالم سختی کر کے نعوذ باللہ نبی کریم ۖ کو مارنا چاہتا تھا کہ حضرت ابو بکر کے پاس یہ چیخ پہنچی کہ اپنے ساتھی کو بچائو تو یارِ غار جلدی سے نکلے اور بھاگتے ہوئے نبی کریم ۖ کے پاس پہنچے اور ظالم کو کندھوں سے پکڑ کر دھکا دیا اور نبی کریم ۖ کو بچانے کی کوشش کرنے لگے۔
اِس دوران وہ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کیا تم لوگ ایک ایسے آدمی کو اِس لیے قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے یارِ غار کی کوشش سے کافر نبی کریم ۖ سے دور ہو گیا ۔ ابتدائے اسلام کے وقت جب کفار کے مظالم سے مسلمانوں پر زندگی تنگ ہو گئی تھی تو حضرت ابو بکر پوری کوشش کر تے کہ ابتدائی مسلمانوں کو کافروں کے مظالم سے بچا یا جا سکے ۔ شروع میں تو اسلام کی تبلیغ خفیہ طور پر جاری تھی ۔ ایک دن حضرت ابو بکر رسول کریم ۖ کی اجازت سے اعلانیہ دعوت اسلام کا ارادہ کیا تو ایک دن جب ساقی کوثر ۖ دارارقم سے نکل کر مسجدِ حرام میں تشریف لے گئے تو حضرت ابو بکر نے کھڑے ہو کر باآواز پکارا۔
اے قریش کے لوگوں سنو میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ۖ اللہ کے رسول ہیں میں تم سب کو دعوت دیتا ہوں کہ تم اِن کے دین کو قبول کر لو بلا شبہ اسلام دینِ حق ہے تم اپنی آخرت کا خیال کرو اور اِس خدائے واحد پر ایمان لے آئو محمد ۖ اس کے سچے نبی ہیں ۔یہ پہلا موقع تھا جب کسی نے سرِ عام اسلام کی دعوت دی مشرکین کے آباو اجداد کے دین کو باطل قرار دیا کفا رمکہ تو پہلے ہی غصے میں تھے حضرت ابو بکر کی اِس تقریر نے جلتی پر تیل کا کام کیا کیونکہ اُن کے جھوٹے خداوں کی تکذیب کی گئی تھی اُنہیں جھوٹا کہا گیا تھا ۔ کفار غصے سے پاگل ہو کر اُٹھے اورحضرت ابو بکر پر ٹوٹ پڑے اتنا مارا کہ زمین پر گرا دیا اور لاتوں اور ٹھوکروں سے مارنا شروع کر دیا اور بے دردی سے پائوں تلے روندنا شروع کر دیا۔ ظالم عتبہ بن ربیعہ نے اِس بے دردی سے یارِ غار کے چہرے پر ٹھوکریں ماریں کے چہرہ مبارک اتنا سوج گیا کہ ناک تک ڈھک گیا ۔ حضرت ابو بکر کے قبیلہ بنوتیم کو پتہ چلا تو وہ فوراً مو قع پر آگئے اور آپ کو کافروں کے نرغے سے نکال کر خون آلودہ کپڑوں سمیت اُن کے گھر لے گئے آپ اِس قدر زخمی اور نڈھال تھے سب یقین کر چکے تھے کہ آپ بچ نہیں پائیں گے کیونکہ آپ تقریباً بے جان اور بے حس حرکت نیم مردہ حالت تھے آپ کے قبیلہ والے جاتے جاتے یہ چیلنج بھر کر گئے کہ اگر ابو بکر زندہ نہ رہے تو ہبل کی قسم ہم عتبہ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
شام تک حضرت ابو بکر بے سدھ پڑے رہے جب آپ کو ہوش آیا تو کراہتے ہوئے بولے میرے محبوب ۖ کا کیا حال ہے ۔ اہلِ خاندان یہ سن کر دنگ رہ گئے کہ ہم تو اِس فکر میں جمع ہیں کہ ابو بکر جانبر ہوتے ہیں کہ نہیں مگر یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ ہے اس لیے قبیلہ والوں کو غصہ آگیا اور ملامت کر تے ہوئے چل دئیے کہ اِس شخص کو زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہیں یہ خود موت کے منہ میں ہے لیکن اِسے اپنی کوئی فکر نہیں فکر ہے تو محمد ۖ کی یہ کیسا عشق تھا یہ کون سا جذبہ اور عقیدت و احترام یا رشتہ ہے عقل وشعور سے ماورا تھا ۔آپ کی والدہ جو بیٹے کے غم میں نڈھال بیٹھی تھیں وہ بو لیں بیٹا کچھ کھا لو یا رِ غار بولے اماں پہلے یہ بتائو شہنشائے دو عالم ۖ کا کیا حال ہے ماں بولی لات کی قسم تمھارے دوست ۖ کا ہمیں کوئی پتہ نہیں تو حضرت ابو بکر نے التجا کرتے ہوئے کہا عُمر کی بہن فاطمہ بنتِ خطاب سے چپکے سے پوچھو میرے محبوب رسول اللہ ۖ کا کیا حال ہے ۔ کیا عشق ہے خود موت کے منہ میں پڑے ہیں اور فکر اپنے محبوب کی ہے۔
بقول شاعر پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے خدا کا رسول ۖ بس
حضرت فاطمہ بنتِ خطاب نے آکر یار غار کو دیکھا تو تڑپ اُٹھی اور کہا اللہ کی قسم جن لوگوں نے آپ کے ساتھ یہ سلوک کیا وہ کافر ہیں فاسق ہیں ظالم اور جھوٹے ہیں اللہ تعالی اُن سے آپ کا انتقام ضرور لے گا ۔ لیکن قربان حضرت ابو بکر پر انہوں نے حضرت فاطمہ بنتِ خطاب سے بھی وہی سوال دہرایا۔
کہ آپ پہلے مجھے یہ بتائو کہ رسول کریم ۖ کیسے ہیں تو حضرت فاطمہ بنت خطاب نے کہا کہ رسول اللہ ۖ خدا کے فضل سے بلکل ٹھیک ہیں ۔ یہ سن کر بھی حضرت ابو بکر کو چین نہیں آیا اور بو لے اِ س وقت رسول اللہ ۖ کہاں پر تشریف فرمائیں آپ کی بے چینی اور بے قراری دیکھ کر حضرت فاطمہ بنتِ خطاب بولیں شہنشاہِ دو عالم ۖ اِس ارقم بن ارقم کے مکان پر تشریف فرما ہیں ۔آپ کی والدہ بضد تھیں کہ آپ بہت زیادہ نڈھال کمزور اور زخموں سے چور ہیں اِس لیے وہ کچھ کھلانے پلانے پر بضد تھیں ماں پریشان کہ کھائے پئیے بغیر اگر آپ باہر چلے گئے تو چلنے پھرنے سے کہیں طبیعت اور نہ خراب ہو جائے یعنی آپ کے زخم اور چوٹیں اور شدید نہ ہو جائیں اِس لیے ماں کھلانے پلانے پر بضد تھیں کہ حضرت ابو بکر صدیق کچھ کھا لیں تاکہ جسم میں طاقت آجائے اور آپ خطرے سے باہر نکل آئیں ۔ لیکن حضرت ابو بکر صدیق کو جو رسول اللہ ۖ سے عشق و محبت تھی وہ لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی ۔ایک بار شہنشاہ ِ دو جہاں رحمت ِ دو جہاں فخرِ دو عالم ۖ اپنے پروانوں کے حلقہ میں جلوہ افروز تھے کہ حضرت ابو بکر صدیق تشریف لائے تو مالک ِ دو جہاں ۖفرمانے لگے جو شخص آگ سے
آزاد شخص کو دیکھنے کا خواہش مند ہو وہ ابو بکر کو دیکھ لے۔
حضرت ابو بکر کو نبی کریم ۖ سے جو عشق تھا اِس کے معترف نہ صرف مسلمان بلکہ اغیار بھی تھے ۔ نورِمجسم ۖجب معراج سے تشریف لائے تو کفار نے سوچا اب وہ ابو بکر کو نبی کریم ۖ کے عشق سے دور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اُن کے پاس گئے اور کہا کیا تم اب بھی اپنے دوست کے عشق میں مبتلا رہو گے تمھارا دوست اب یہ کہتا ہے کہ وہ رات کو بیت المقدس گیا ہے تو حضرت ابو بکر فرمانے لگے اگر یہ بات رسول اللہ ۖ نے فرمائی ہے تو یہ سچ ہے تو کفار بولے کیا یہ بات تمھاری عقل تسلیم کرتی ہے تو آپ فرمانے لگے اگر حضو ر ۖ یہ کہیں کہ میں نے آسمانوں کو صبح سے شام تک طے کر لیا تو میں یہ بھی سچ مانوں گا کفار نا کام ہوئے اور عشقِ رسول ۖ کامیاب ہو گیا۔
جب حضرت ابو بکر نے رسول اللہ ۖ کو دیکھنے کی بہت ضد کی تو دونوں خواتین حضرت ابو بکر کو اپنے کندھوں کا سہارا دے کر دارارقم لے گئیں رحمتِ دو جہاں ۖ نے جب اپنے دیوانے یار کو زخموں سے چور اِس حالت میں دیکھا تو آپ ۖ پر رقت طاری ہو گئی جبکہ ابو بکر نے جیسے ہی نورِ مجسم سرورِ کونین ۖ کے چہرہ انور کو دیکھا تو آپ ۖ سے خوشی سے لپٹ گئے اور دیوانہ وار بوسے لینے لگے ۔ اور رسول کریم ۖ کی خدمت اقدس میں عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ ۖ میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے کوئی خاص تکلیف نہیں ہے یہ میری والدہ اپنے بیٹے کے ساتھ حاضر ہیں اِن کو دین کی دعوت دیں اور دعا فرما دیں کہ اللہ تعالی اِن کو آگ کے عذاب سے بچائے۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org