اسلام آباد(یس اردو نیوز)افغانستان میں ایک بار پھر تشدد کی لہر میں اضافہ ہوا ہے ۔ دارالحکومت کابل سمیت کئی علاقوں میں سڑک کنارے نصب بارودی مواد کے ذریعے سیکیورٹی اداروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی رہی ہے۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں یکے بعد دیگرے چار دھماکوں میں متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پولیس حکام کا کہنا ہے کہ چاروں دھماکے سڑک کنارے نصب بارودی مواد کے ذریعے کیے گئے۔ کابل پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ دھماکوں میں چار افراد زخمی ہوئے جن میں عام شہری اور بچے بھی شامل ہیں۔دھماکے کئی ماہ بعد ایک منظم طریقے سے کیے گے حملے کی نشاندہی کررہے ہیں۔کابل میں ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری فوری طور پر طالبان یا کسی بھی گروہ نے قبول نہیں کیں۔یہ دھماکے ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب حکام کابل میں کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لاک ڈاؤن پر عمل درآمد میں مصروف ہیں۔افغانستان کے مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق کابل میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سات دھماکے ہوچکے ہیں تاہم حکام کا دعویٰ ہے کہ ان دھماکوں میں کسی کے ہلاک ہونے کی اطلاع سامنے نہیں آئی۔ پیر کو کابل کے علاقے تھیہ مسکن کے علاقے میں دھماکے ہوئے۔حکام کا کہنا ہے کہ کابل میں ہونے والے دھماکوں میں افغان خفیہ ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) اور سرکاری گاڑیوں میں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ امریکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پیر کو تین دھماکوں کے لیے دھماکہ خیز مواد سڑک کنارے نصب کیا گیا تھا جبکہ ایک بم کچرے کے ڈھیر میں رکھا گیا تھا۔
کابل پولیس کے ترجمان فردوس فرامرز کا کہنا تھا کہ دھماکہ خیز مواد 10 سے 20 میٹر کے فاصلے پر نصب کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کہ دھماکوں میں ایک 12 سالہ بچی بھی زخمی ہوئی ہے جس کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ فردوس فرامرز کا کہنا تھا کہ پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے اور اس جگہ کی تلاشی لی جا رہی ہے کہ کہیں مزید کسی اور مقام پر تو بارودی مود نصب نہیں کیا گیا۔ ‘اے پی’ کے مطابق افغان دارالحکومت کابل میں گزشتہ ایک ہفتے میں حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ طالبان نے امریکہ سے فروری میں ہونے والے امن معاہدے کے بعد کابل میں اس طرح کی کوئی بھی بڑی کارروائی نہیں کی۔ معاہدے کے تحت غیر ملکی افواج نے افغانستان سے آنے والے مہینوں میں انخلا کرنا ہے۔ اسی لیے طالبان نے معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے بڑی کارروائیاں ترک کر دی تھیں۔
اتوار کی شب ہونے والے دھماکوں میں دو حملے دستی بموں سے کیے گئے تھے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان نے ان دستی بم حملوں کے حوالے سے بتایا تھا کہ ان میں کوئی شخص نشانہ نہیں بنا تھا۔
گزشتہ جمعرات کو کابل میں ایک بجلی گھر پر راکٹ سے حملہ کیا گیا تھا جب کہ سڑک کنارے نصب دو بموں کے دھماکوں میں سرکاری اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ تاہم ان دھماکوں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کسی تنظیم نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
خیال رہے کہ فروری میں دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کے تحت طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ جاری ہے۔ امریکہ اور طالبان میں ہونے والے اس معاہدے کے تحت افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار جب کہ طالبان نے افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کرنا ہے۔
قیدیوں کی رہائی مکمل ہونے کے بعد امکان ہے کہ بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوگا۔ جس میں افغانستان کے مستقبل اور انتظامیہ معاملات کو حتمی شکل دی جائے گی۔
افغان حکومت نے اب تک ایک ہزار سے زائد طالبان قیدیوں کی رہائی کی تصدیق کی ہے جب کہ طالبان نے 300 کے قریب افغان حکومت کے قیدیوں کو رہا کیا ہے۔