تحریر : پروفیسر محسن عثمانی ندوی
کلیم احمد عاجز کا تقریبا ۹۵ سال کی عمر میں انتقال ہو گیا، وہ بڑے شاعر تھے، میر تقی میر کے رنگ میں ان کا کلام مقبول خاص وعام ہوا، وہ بہار میں تبلیغی جماعت کے امیر بھی تھے ، اس کی طرف انہوں نے اپنے ایک مصرعہ میں اشارہ بھی کیا ہے ’’ طبع شاہانہ ملی منصب فقیرانہ ملا ‘‘ ان کی شخصیت ہشت پہل ہیرے کی مانند تھی وہ پٹنہ یونیورسیٹی میں شعبہ اردو میں استاد تھے ،پروفیسر تھے لیکن کبھی اپنے نام کے ساتھ یہ سابقہ نہیں لگایا۔ اب تو بقول مشفق خواجہ’’ ایک بار جو پروفیسر ہوجاتا ہے زندگی بھر اس سابقہ سے اس کا پیچھا نہیں چھوٹتا وہ زندگی بھر خود کو پروفیسر لکھتا رہتا ہے چاہے بعد میں عقل کی Kaleem ajizباتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے‘‘یہ اعتراض خود مجھ پر بھی عائد ہوتا ہے یہ ایک ایسی شناخت بن گئی ہے کہ ہٹاتے نہیں ہٹتی ہے میں نہ لکھوں تو لوگ لکھتے ہی رہتے ہیں ۔ڈاکٹرتو ایک ڈگری ہے آدمی اپنے نام کے ساتھ یہ ڈگری ہمیشہ لکھ سکتا ہے لیکن پروفیسر ایک عہدہ ہے رٹائرمنٹ کے ساتھ یہ عہدہ بھی ختم ہوجاتا ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کلیم عاجز جب پروفیسر تھے اس وقت بھی انہوں نے اپنے نام کے ساتھ پروفیسر نہیں لکھا انہیں پدم شری کا خطاب ملا تھا لیکن وہ یہ اعزاز لینے بھی نہیں گئے پھر یہ سرکاری اعزاز انہیں گھر پہونچایا گیا ۔ناموں کے ساتھ لنبے لنبے القاب لکھنا در اصل قد کو اونچا کرنے کی کوشش کرنا ہے بالفاظ دیگر ہائی ہیلڈ سینڈل پہنانا ہے۔
ان کی شخصیت Complex free شخصیت تھی احساس کمتری اور احساس برتری سب سے آزاد ، نمود و نمائش سے دور، فخر و غرور سے نفور ، سادگی لیکن شائستگی اور سلیقہ مندی کے ساتھ ، کپڑا بدن پر چاہے معمولی ہو لیکن نہایت اجلا اور شفاف ، استری کیا ہوا اور اس پر کوئی شکن نہیں ، وہ اپنا کپڑا خود دھو لیتے تھے ، کلیم صاحب میں بہت سی غیر معمولی خصوصیات تھیں ،وہ سب کے ساتھ نہایت خلوص کے ساتھ ملنے والے تھے، تعلقات کو نباہنے والے تھے خطوط لکھنے میں دراز نفسی سے کام لکھنے والے تھے بہت خوش خط اور پرویں رقم تھے ، ، نہایت عبادت گذار ،شب زندہ دار ، ان کی شخصیت غم کے سانچہ میں ڈھلی ہوئی تھی ، غم انسان کی شخصیت میں ایک گداز پیدا Kaleem ajiz1کردیتا ہے جس طرح موم حرارت پاکر پگھلتا اور پھیلتا ہے اس طرح سے انسان کا دل غم اور مسلسل غم کی حرارت سے پھیل کر بڑا ہو جاتا ہے ، اتنا بڑا ہو جاتا ہے جتنا بڑا کلیم عاجز کا دل تھا، اسی لئے غم کا مقام طرب اورخوشی سے زیادہ بلندہے اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ دائم الاحزان تھے ،مسلسل غم سے آپﷺ کی زندگی عبارت تھی ۔ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالی ٹوٹے ہوئے دل کے پاس ہوتا ہے ، حزن اور غم جو کام کرتا ہے خوشی وہ کام نہیں کرسکتی ہے، غم شخصیت میں ایک گدار پیدا کرتا ہے، بڑائی پیدا کرتا ہے ، گمبھیرتا پیدا کرتا ہے ۔ دنیا میں ادب وفن کی بڑی بڑی تخلیقا ت مزاج غم کی آئینہ دار ہیں ، تاج محل دنیا کی خوبصورت ترین عمارت ہے لیکن اس کے پیچھے دل کا غم اور اداسی کی کیفیت ہے ، اس کی تعمیر کے پس منظر میں غم اور الم ہے ، شکسپیر کے جتنے زیادہ مشہور اور اچھے ڈرامے ہیں وہ سب ٹریجڈی ہیں، کامیڈی نہیں ہیں المیہ ہیں طربیہ نہیں ہیں ، میکبتھ ،رومیو جولیٹ ، کنگ لیر ، اور ہمیلیٹ، وہ فن پارے ہیں جو ٹریجڈی ہیں ، یہی مزاج غم اور الم ہے جس نے کلیم عاجز کے دل کو بہت بڑا دل بنا دیا تھا ، اتنا بڑا کہ انسانیت کا سارا کنبہ اس کے اندر سمٹ آیا تھا ، جو دوست اور دشمن دونوں پر مہربان تھا ، چنانچہ کلیم صاحب کہتے ہیں
اپنا یہ کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ
رستے میں خواہ دوست یا دشمن کا گھر ملے
کلیم صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے غم سے ایک پورا غم خانہ ایک پورا ایوان غم تعمیر کرڈالا ہے جو شخص ان کا کلام پڑھتا ہے سوچنے لگتا ہے کہ یہ غم کاکیسا کار خانہ ہے جہاں سے غزلیں ڈھل ڈھل کر نکلتی ہیں ،وہ میر کی طرح سوچنے لگتا ہے جی سی اٹھتا ہے جاں سے اٹھتا ہے؟ ، یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے ؟ ایک غم ہے اور ہزاروں اشعار، ایک غم ہے اور سیکڑوں غزلیں ،اور خود کلیم عاجز نے اعتراف کیا ہے
کھولے ہوئے ہیں غزلوں کی دکاں ٹوٹے ہوئے دل کے نام سے ہم
چھلکائیں گے کتنے جام ابھی اس ایک شکستہ جام سے ہم
بجھنے کا خیال آتا ہی نہیں روشن جو ہوئے اک شام سے ہم
تکلیف سلگنے ہی تک تھی جلتے ہیں بڑے آرام سے ہم
کلیم صاحب خود اپنے مزاج غم کا پورا احترام کرتے تھے اور اس کا خیال رکھتے تھے کہیں کوئی نا شناس غم اسے کہاتھ نہ لگا دے، وہ کہتے ہیں کہ
زبان درد بہت کم سمجھنے والے ہیں
یہاں نہ کس وناکس سے گفتگو رکھیو
لٹا نہ دیجیو سب غم کی رنگ رلیوں میں
بچا کے دل کے پیالے میں کچھ لہو رکھیو
کلیم صاحب نے ہمیشہ غم کا احترام کیا ہے اوراسی کے ساتھ اپنے فن کا بھی احترام کیا ہے حو غم کا پروردہ ہے ۔ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ اپنے اس بندے سے محبت کرتا ہے جو کوئی کام کرتا ہے تو پرفکشن کے ساتھ اور حسن وخوبی کے ساتھ کرتا ہے ۔ کلیم صاحب نے فن کا پورا احترام کیا بطور تفہیم Kalim_Ajiz_photoایک دو باتیں عرض کرتا ہوں ، آج کل مشاعرہ میں شعراء کو دور دور سے اے سی کلاس کا یا ہوائی جہاز کا کرایہ دے کر بلایا جاتا ہے ، ان کی دلجوئی اور خاطر داری کی جاتی ہے اور ان کی خوب پذیرائی ہوتی ہے لیکن شعراء کرام اپنی کوئی پرانی غزل جسے وہ بیسوں بار مشاعروں میں ینا چکے ہیں قتد مکرر کے طور سنا کر چلے جاتے ہیں ۔ کلیم صاحب بہار ہی میں نہیں پورے ملک میں مشاعروں میں عزت واحترام کے ساتھ بلائے جاتے تھے سیکڑوں مشاعروں میں انہوں نے غزلیں پڑھی ہیں لیکن یہ رکارڈ ہے کہ ہر مشاعرہ میں انہوں نے نئی غزل پڑھی ہے کسی مشاعرہ میں انہوں نے پڑھی ہوئی غزل کو نہیں دہرایا، یہ الگ بات ہے کہ جب بہت شور ہوا اور مطالبہ ہوا کہ’’ ایک اور، ایک اور ‘‘ تو لوگوں کے اصرار پر انہوں نے کوئی پرانی غزل سنائی لیکن مشاعرہ کی پہلی غزل ہمیشہ نئی غزل ہوتی تھی،
یہ بھی گویا شاعری کا احترام ہے کہ جب لوگوں نے احترام کے ساتھ بلایا ہے اور کرایہ دیا ہے تو انہیں نئی غزل سنائی جائے ۔ کلیم صاحب نے اپنے فن کو عبادت کا درجہ دیاتھا اور فن کے آداب کو برتا تھا ۔ دیکھئے جب مسجد کا امام مسجد میں نماز پڑھاتا ہے تو اس کے ہاتھ میں کاغز اور صحیقہ نہیں ہوتا ہے وہ اپنی یادداشت سے قرآن کی سورتیں پڑھتا ہے وہ سورتیں پڑھتا ہے جو اسے ٹھیک سے یاد ہوتی ہیں ایک عبادت گذار نمازی نمازمیں قرآن کی سورتیں اپنی یادداشت سے پڑھتا ہے ۔ کلیم صاحب نے بھی کبھی کسی مشاعرہ میں کاغز یا نوٹ بک یا ڈائری یا بیاض سامنے رکھ کر غزل نہیں سنائی ۔ سیکڑوں اور ہزاروں لوگوں نے کلیم صاحب سے غزل سنی ہو گی انہوں نے نہیں دیکھا ہوگا کہ انہوں نے کوئی ڈائری یا کاغز نکال کر غزل سنائی ہو ۔جن لوگون نے کلیم صاحب کو نہیں دیکھا اور نہیں سنا وہ یو ٹیوب پر انہیں غزل پڑھتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں ۔ جب وہ غزل سناتے تو بے خودی کی کیفیت کے ساتھ اپنے کلام میں ڈوب کر سناتے ، اکثر ان ؛پر ایک خود فراموشی کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی، یہ ہے اپنے فن کا احترام اور فن اور شخصیت کا ادغام۔
اور آخری بات یہ کہ کلیم صاحب نے فن اور عبادت کو جمع کیا تھا ، سخنوری اور شاعری کے ساتھ دین داری کو اپنے اندر جمع کرلیا تھا یہ بھی کلیم صاحب کی بڑی خصوصیت ہے ، شاعر تو بہت سے لوگ ہوتے ہیں اگر آدمی اس مختصر دنیا میں شاعر کی حیثیت سے تو کامیاب ہو لیکن ہمیشہ رہنے والی زندگی میں ناکام ہو تو یہ نفع کا سودا نہیں ، کلیم صاحب نے شاعری کی اور بڑی شاعری کی، لوگوں نے ان کو میر کا وارث قرار دیا لیکن ان برائیوں سے اپنے دامن کو آلودہ نہیں کیا جن سے بہت سے شعراء محترز نہیں ہو پاتے ہیں ، کلیم صاحب دنیا میں بھی سر خرو رہے اور آخرت میں بھی سر خرو رہیں گے ۔ اس اعتبار خاص سے بھی کلیم عاجز کا درجہ ہزاروں شعراء سے بلند ہے۔
تحریر : پروفیسر محسن عثمانی ندوی