تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی
یوں تو صفائی نصف ایمان ہے، اور اپنے اطراف کے علاوہ صفائی ستھرائی کا بندوبست ہر جگہ ہونا ضروری ہے۔ آج کل صوبہ سندھ باالخصوص شہرِ قائد میں حکومتی سرپرستی میں ہفتہ صفائی منایا جا رہا ہے، جسے دیکھو صفائی مہم میں جُٹا ہوا ہے۔ ہمارے ملک کی مشہور اور بڑی ہستیاں بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ ویسے تو صفائی مہم میں ہر کسی کو حصہ لینا چاہیئے چاہے وہ حکومتی سرپرستی میں کی جائے یا پھر سول سوسائیٹی کی جانب سے۔ لیکن کیا یہ صفائی سچ میں گندگی کو ہٹانے کے لئے کی جا رہی ہے یا صرف ٹی وی اور اخباروں اور دوسرے سوشل میڈیا پر چھا جانے کے لئے کی جا رہی ہے کیونکہ صورتحال اب بھی جوں کی توں ہے۔
ہم اس صفائی مہم کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لے رہے ہیں۔ صفائی تو وہاں ہونی چاہیئے جہاں سچ میں اس کی شدید ضرورت ہے۔ ایسے علاقوں کو ڈھونڈنے کے لئے ہمیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہر علاقے میں ایسے محلوں اور گلیوں کی بھرمار ہے جہاں گندگی کا انبار ہے۔ ان علاقوں میں کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ آخر وہاں کے رہنے والے بھی تو انسان ہی ہیں۔ ان کے بارے میں کوئی کیوں نہیں سوچ رہا ہے۔ شہر کے تمام ہی علاقوں کو اہمیت اور اوّلیت دی جائے تاکہ صفائی مہم کامیابی سے ہمکنار ہو سکے۔ ایسے علاقوں کو نظر انداز نہ کیا جائے جہاں کے رہنے والے بھی آپ ہی کی طرح انسان ہیں اور انہیں بھی صاف ماحول میں رہنے کی ضرورت ہے۔
ہفتہ صفائی پر ہی کیا موقوف! ہر سطح پر انسان جیسے جیسے ترقی کر رہا ہے ویسے ویسے انسانی اقدار و تمدن سے دور بھی ہوتا جا رہا ہے، پھر بھی اسے موجودہ دور پر اپنی ٹیکنالوجی اور ترقی پر بڑا ناز ہے اور ہمارے دانشوروں کو یہ احساس ہمیشہ خوش فہمی میں مبتلا کیئے رہتا ہے کہ وہ اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں جو بجا طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کی صدی ہے لیکن اکیسویں صدی کے بعد بائیسویں صدی بھی آتی ہے، ہم تو ابھی تک اپنا صفائی کا نظام ہی درست نہیں کر سکے۔ یہ ہفتہ صفائی کی بات نہیں بلکہ جو افراد (خاکروب) متعلقہ محکموں کے ذریعے مختلف علاقوں میں صفائی پر تعینات ہیں وہ کبھی کام کرتے ہوئے پائے ہی نہیں گئے، ہاں! ایک بات ضرورت ہے کہ وہ لوگ ایسے مواقعوں پر ضرور نظر آتے ہیں جب کوئی وی وی آئی پی کا کسی علاقے میں دورہ مقصود ہو۔ پھر دیکھیں ان کی چابکدستی، علاقے کو ایسا صاف ستھرا بنا دیا جاتا ہے کہ لوگ دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ادھر مخصوص شخصیت دورے کے بعد روانہ ہوئے ، پھر کیا صاحب ! پھر کوئی خاکروب اُس علاقے کا رُخ تب تک نہیں کرتا جب پھر کسی نئے آنے والے کی نوید نہ مل جائے۔
اگر آپ قوموں کے عروج و زوال اور بنائو و بگاڑ کی تاری پر صَرفِ نظر کریں تو یہ اندازہ کر لینا کوئی مشکل نہیں کہ دنیا میں اُنہی قوموں کو عروج حاصل رہا ہے جن کی بنیادیں اعلیٰ اخلاق و صفات پر تھیں اور ہمارا ملک تو ویسے بھی صوفیوں، سنتوں والوں کا ملک ہے۔
پھر یہاں کیسے ایسے ایسے غیر انسانی فعل، قتل و غارت گری، گندگی کا ڈھیرسب کچھ موجود ہے۔ہمارے یہاں تو ایک پولیو ورکر بھی محفوظ نہیں کہ پتہ نہیں کب کدھر سے کوئی انجانی گولی آجائے اور اس کے زندگی کا چراغ گل ہو جائے۔ خدا خیر کرے! صفائی ستھرائی کا ذکر جہاں آتا ہے تو پھر سب سے پہلے ہمیں پان، چھالیہ، کھانے والوں پر کڑی نظر رکھنی ہوگی، پان کی شان اس کی طلب اس کا ذائقہ اور لطف تو کسی پان کے شیدائی یا اس کے عاشق اور شائق سے پوچھیئے۔ پان کا عادی کوئی شخص ہی اس کی حقیقی لذت فوائد اور اثرات و کیفیت پر تفصیلی روشنی ڈال سکتا ہے۔ جس سے پان کھانے والا حقیقتاً پان کا بیڑا منہ میں دبانے کے بعد لطف اندوز ہوتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔ پان ضرور کھایئے آپ کو کون روکتا ہے مگر اتنا ضرور کیجئے کہ پان کھا کر اپنے اطراف کے سڑکوں، فٹ پاتھوں، گھر کے آنگن، پودوں کے گملوں، اوور ہیڈ برج سے نیچے کی طرف تھوک تھوک کر گندا نہ کریں۔ سب سے زیادہ بُرا وہی حصہ نظر آتا ہے جہاں پان کی پیک موجود ہو۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
معیارِ زندگی کو بڑھانے کے شوق میں
کردار پستیوں سے بھی نیچے گِرا دیا
یکے بعد دیگرے فوجی راج کی وجہ سے پاکستانی عوام کی جمہوریت سے نا آشنائی ہی پاکستان کا اصل مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں نیچے سے اوپر تک ہر معاملے میں پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں جو سیاسی طبقہ ابھرا بھی تو اس کا بڑا حصہ جاگیرداروں اور وڈیروں پر مبنی تھا، جو جمہوریت کے بس اسی حد تک قائل ہوتے ہیں، جس حد تک وہ ان کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ تو پھر ذرا سوچیئے کہ پھر یہ صفائی کی طرف کون توجہ دینا چاہے گا؟ میں تو اس موقع پر ضمیر صاحب کا یہ شعر درج کرنا چاہوں گا۔
اپنا ضمیر بیچ کے سب کچھ ملا اگر
سمجھو کہ کچھ ملا ہی نہیں سب ہی کھو دیا
کانٹوں بھرا درخت ہی پھوٹے گا اس سے اب
ایک بیج ایسا دل کی زمیں پر جو بو دیا
ہمارے یہاں صفائی کی ضرورت پر زور تو دیا جاتا ہے مگر کیا اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لئے ہم عملی اقدامات کر رہے ہیں، شاید نہیں! کیونکہ ہمارے یہاں تو کئی سالوں سے بلدیاتی الیکشن ہی نہیں ہوئے، اور جب نچلے طبقے کو اختیارات منتقل ہی نہیں ہونگے تو یہ صفائی ستھرائی ہی کیا کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہو سکے گا۔ آپ ہفتہ صفائی ضرور منائیں اور اس کام کو شہر کے کونے کونے تک پھیلائیں تاکہ ہمارا شہر، ہمارا محلہ، ہماری گلیاں، ہماری سڑکیں سب ہی صاف و شفاف ہو جائیں۔
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی