کراچی (یس ڈیسک) کراچی کے بینکوں میں پہلے تو بڑے بڑے ڈاکو ڈکیتیاں کرتے تھے، لیکن پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان ڈکیتیوں کو معمول سمجھ کر ایسی چین کی نیند سوئے ہیں کہ اب اناڑی ڈاکووں کو بھی ہاتھ سیدھا کرنے کے لیے کراچی کے بینکوں میں بھیجا جاتا ہے۔ چہرے پر داڑھی، سر پر ٹوپی اور کاندھے پر صافہ ڈالے یہ صاحب کسی کا نکاح پڑھانے نہیں بلکہ کراچی کے ایک بینک میں ڈکیتی فرمانے آئے ہیں۔ نیا نیا کام شروع کیا ہے، اس لیے کچھ گھبرائے ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے تو انھوں نے بینک میں داخل ہو کر یہ اعلان کیا کہ ان کے ہاتھ میں ایک عدد بم ہے۔
سیکیورٹی گارڈز نے یہ بھی نہ پوچھا کہ بھئی اپنا بم تو دکھاؤ، اصلی ہے یا چائنا، لیکن سیکیورٹی گارڈ تو بم کا نام سنتے ہی رفوچکر ہو گئے اور بینک کو ڈاکو صاحب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اناڑی ڈاکو اپنے ساتھ جو پستول لایا تھا اس نے اسے لوڈ کرنے کی کوشش کی، یہ کوشش ایک بار نہیں، باربار کی، پر ناکام رہا، ڈاکو کی یہ مصروفیت دیکھ کر کوئی ہمت والا اس کے سر پر چپت لگا کر اس کی طبیعت صاف کر سکتا تھا، لیکن کوئی موجود ہوتا تو نا۔ اناڑی ڈاکو نے ناکارہ پستول کیش کاونٹر پر رکھا اور کائونٹر کا شیشہ توڑنے کی کوشش کی۔
بے چارے کے پاس کوئی ہتھوڑی یا اوزار بھی نہیں تھا جس سے وہ شیشہ توڑتا۔ آخر وہ شیشے سے جھول گیا اور شیشہ اس کے ساتھ زمین پر آگیا۔ اس نے کیش اپنے تھیلے میں بھرا اور باہر جانے لگا، لیکن یہ کیا، اسے یاد آیا کہ اس کا پستول تو وہیں رہ گیا، سو واپس آیا اور اپنے پستول کو اٹھا لایا۔ کام مکمل کرنے کے بعد باہر موٹر سائکل سٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگر وہ بھی سٹارٹ نہ ہوئی۔
آخر اسے دھکا لگا کر سٹارٹ کرنا پڑا۔ اس تمام عرصے میں بینک کا عملہ اور سیکیورٹی گارڈ کسی کونے میں چھپے، ڈاکو کی کارروائی جلد ختم ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ پتا نہیں کسی نے پولیس کو بتایا یا نہیں، تاہم بینک سے سی سی ٹی وی فوٹیج ضرور حاصل کرلی گئی ہے، فوٹیج میں اناڑی ڈاکو صاف پہچانا جا رہا ہے، لیکن ایسے جلدی بھی کیا ہے، سانپ نکل گیا، کچھ عرصہ لکیر پیٹی جائے گی۔ اس دوران اناڑی ڈاکو ڈیڑھ ہوشیار ہو چکا ہو گا۔