counter easy hit

کراچی کے انتخابی معرکہ کا فاتح کون

Election

Election

تحریر: ایم ایم علی
کراچی کے حلقہ این اے 246 میں انتخابی معرکہ 23 اپریل کو لگے گا اس حلقے میں سیاسی جماعتوں با لخصوص ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کی جانب سے انتخابی مہم اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ اس حلقے کا ضمنی انتخاب ملکی سیاست میں انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے، چونکہ یہ حلقہ ایم کیو ایم کا گڑھ ہے اس لئے اس حلقہ میں ہونے والے انتخاب کو سیاسی حلقوں کی جانب سے ایم کیو ایم کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیا جا رہا ہے۔

یوں تو کراچی میں ایم کیو ایم کی راویتی حریف جماعت اسلامی ہے لیکن ایسا لگ رہا کہ اس دفعہ یہ انتخابی معرکہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان ہوگا ۔ایم کیو ایم کے رہنما تو اب بھی اپنا حریف جماعت اسلامی کو ٹھہرا رہے ہیں ایم کیو ایم کی نظر میں تحریک انصاف اس حلقے میں تیسرے نمبر پر ہے، مگر (یار لوگوں)کاکہنا ہے کہ 23اپریل کو اصل معرکہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان ہی ہو گا اور تحریک انصاف نے بھی جس جارحانہ انداز میں اس حلقے میں اپنی انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے اس سے بھی یہی لگتا ہے کہ تحریک انصاف ایم کیو ایم کو ٹف ٹائم دینے کیلئے مکمل تیار ہے۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے جناح گراونڈ میں جلسہ کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے جو یقینا ایم کیو ایم کیلئے نا قابل برداشت ہو گا، کیو نکہ حسب راویت اگر تحریک انصاف جناح گراونڈ میں بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس سے ایم کیو ایم کو نہ صرف اس حلقے میں بلکہ پورے کراچی میں سیاسی دھچکا لگے گا ۔صولت مرزا کے ایم کیو ایم کے بارے میں تہلکہ خیز انکشافات اور نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے بعدایم کیو ایم کو پہلے ہی سیاسی طور پر کافی نقصان پہنچ چکا ہے ۔لیکن ان سب کے باوجود ایم کیو ایم جارحانہ موڈ میں دیکھائی دیتی ہے اور وہ ہر حال میں اس حلقے میں اپنا اثرو رسوخ قائم رکھنا چاہتی ہے اور ہر قیمت پر یہ ضمنی انتخاب جیتنا چاہتی ہے ۔شائد یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کی ہر ممکن کوشش ہے کہ عمران خان جناح گراونڈ میں جلسہ نہ کریں ،کیونکہ ایم کیو ایم کو یہ خد شہ بھی ہے کہ اگر تحریک انصاف نے جناح گرونڈ میں جلسہ کر لیا تو تحریک انصاف کی دیکھا دیکھی دوسری جماعتیں بھی جناح گراونڈ کا رخ کریں گی جو ایم کیو ایم کیلئے کسی بھی صورت میں ناقابل قبول ہے ۔چند روز پہلے جب تحریک انصاف کے امیدوار عمران اسمعیل اپنے کارکنوں کے ہمراہ جناح گراونڈ پہنچے تو جو نہی یہ خبر ایم کیو ایم کے رہنماوں تک پہنچی تو وہ بھی اپنے کارکنوں کو لے کر جناح گرونڈ پہنچ گئے اور دنوںجماعتوں کے کارکنوں نے ایک دوسرے کے خلاف نعرہ بازی شروع کر دی بات صرف نعرے بازی تک ہی محدود نہ رہی بلکہ ایم کیو ایم کے کارکنوں نے تحریک انصاف کے امیدوار عمران اسمعیل کی گاڑی پر پتھراو کیا اور ان کی گاڑی کو شدید نقصان پہنچایا ،موقع کی مناسبت کو بھانپتے ہوئے عمران اسمعیل اپنے کارکنوں کے ہمراہ وہاں سے چلے گئے لیکن اس واقعہ کے بعد دونوں جماعتوں میں تنائو مزید بڑ ھ گیا ہے،اس کے علاوہ کریم آباد کے علاقے میں بھی ایم کیو ایم کے کارکنوں نے تحریک انصاف کا انتخابی کیمپ اکھاڑ دیا لیکن اس واقعہ پر ایم کیو ایم کا موقف ہے کہ کیمپ اکھاڑنے والے ہمارے کارکن نہیں بلکہ اس حلقے کی عوام ہے۔

ان دونوں واقعات کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے اور دونوں طرف سے الفاظ کی جنگ شروع ہو چکی ہے ایک دوسرے پر الزامات کے بھر پور وار کئے جارہے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف دھواں دار پریس کانفرنسیں کی جارہی ہیں ۔بادی النظر میں جیسے جیسے الیکشن کا دن قریب آتا جائے گا ویسے ویسے دونوں جماعتوں کے مابین تلخی بھی بڑتی جائے گی (یار لوگوں) کا کہنا ہے کہ اگر تحریک انصاف جناح گراونڈ میں جلسہ کرنے کے فیصلے پر قائم رہی تو جلسے والے دن کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آ سکتا ہے ۔تحریک انصاف اس حلقے میں حد سے زیادہ جا حانہ انداز میں دیکھائی دے رہی ہے اور اس کے حد سے زیادہ جارحانہ انداز سے بھی لوگوں کے ذہنوں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں، کہ کیا تحریک انصاف کو پس پردہ بھی کسی کی حمائت حا صل ہے ؟یا پھر تحریک انصاف صرف ایم کیو ایم پر اپنا دبائو بڑھانے کیلئے جا حانہ انداز اپنائے ہوئے ہے؟۔اس انتخابی معرکے میں شامل تیسری جماعت جماعت اسلامی فی الحال خاموشی سے اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہے۔

اگر اس حلقے میں 2013 کے عام انتخابات کے نتائج پر نظر ڈالی جائے تو اس حلقے سے جماعت اسلامی تیسر ے نمبر پر رہی تھی اور تحریک انصاف دوسرے جبکہ ایم کیو ایم ایک لاکھ 37 ہزار سے زائد ووٹ لے کر فاتح رہی تھی لیکن عام انتخابات کی نسبت اب حالات کافی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں اور اس وقت میڈیا اور پورے ملک کی نظریں اس حلقے پر ہیں۔ تحریک انصاف کی جانب سے اس حلقے میں رینجرز اور فوج کو طلب کئے جانے کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے،حالات کے پیش نظر الیکشن کمیشن پر بھی دبائو بڑھ رہا ہے کہ وہ الیکشن والے دن اس حلقے میں فوج یا رینجرز تعینات کرے ۔سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اس حلقے میں ایم کیو ایم کی پوزیشن اب بھی کافی مضبوط ہے اور اگر جماعت اسلا می اس الیکشن میں اپنا امیدوار قائم رکھتی ہے تو اس کا بھی فائدہ ایم کیو ایم کو ہی ہوگا۔مگر اس کے برعکس اگر جماعت اسلامی اپنا امیدوار تحریک انصاف کے امیدوار کے حق میں دستبردار کروالیتی ہے اور اس حلقے کے لوگوں کا اگر مزاج بھی بدلتا ہے اور اس حلقے لوگ بلا خوف خطر ووٹ ڈالنے نکلتے ہیں تو 23 اپریل کو ہونے والے اس ضمنی انتخاب کے حیران کن نتائج بھی سامنے آ سکتے ہیں۔

MM Ali

MM Ali

تحریر: ایم ایم علی