تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ
جیتنے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اگر آپ ان پر بہترین حکمتِ عملی سے عمل کریں تو جیت یقینی ہو گی بلکہ آپ ہمیشہ جیتتے رہیں گے جیسے مصر، شام اور لیبا کے حکمران جیتتے رہے ہیں۔ کراچی کی لسانی تنظیم ایم کیو ایم نے ان سنہری اصولوں پر عمل کیا اور پھر جیت گئی۔ جہاں پولنگ اسٹیشنزکے اندر دھاندلی ہوتی ہے ٹھپے لگتے ہیں وہاں تو رینجرز گئی ہی نہیں باہر امن وامان قائم کرنے میں مصروف رہی۔ کچھ ہنگامہ کرنے والوں کو گرفتار بھی کیا اور کچھ امیدواروں کی نشان دہی پر ایم کیو ایم کے جعلی پولنگ عملے کو گرفتار بھی کیا اور سزا بھی دی۔
کراچی کے لوکل باڈی انتخابات پر ٹی وی اینکرز کے تجزیے کے مطابق اس دفعہ مار دھاڑ اور ٹھپوں والے طریقہ میں میں چالیس فی صد کمی ہوئی۔ الیکشن جتنے کے ایم کیو ایم کے اصول کیا ہیں۔(١) سب سے پہلے قومیت کی بنیاد پر تنظیم قائم کررہیںپھر اپنی قوم کے ہم نوائوں میں لسانیت کی زہربھریں۔(٢) پھر ہم پیالہ ہم نوالہ دوسری قوم کی لسانیت تنظیم سے مفاہمت کریں۔(٣)الیکشن میں لسانیت کی بنیاد پر قوت حاصل کریں اور اقتدار مل جانے پر حکومتی وسائل سے بھرپور فاہدہ حاصل کریں۔(٤)مقامی اور بین الاقوامی مد گاروں سے مدد حاصل کریں پھر بار بار کیا ہمیشہ کے لیے الیکشن جیتتے رہیں گے۔
اسی فارمولہ پر عمل کرتے ہوئے سب سے پہلے الطاف حسین صاحب نے کراچی کے مہاجروں کے حقوق کے نام سے تعلیم اداروں میں مہاجر اسٹوڈنٹ یونین کی بنیاد ڈالی۔ اس سے پہلے تعلیمی اداروں میں بلوچ اورسندھ اسٹوڈنٹ یونین قائم تھیں مگر وہ اس طرح کامیاب نہیں ہوئیں جیسے مہاجر اسٹوڈنٹ کامیاب ہوئی کیونکہ ان قوموں کو وڈیروں نے اپنے جالوں میں پھنسایا ہوا ہے۔ مہاجر اسٹوڈنٹ کے بعد مہا جر قومی موومنٹ سے نام سے سیاسی تنظیم قائم کی اس میں کوٹہ سسٹم اور مہاجروں نوجوانوں کے احساس محرومی سے خوب فاہدہ اُٹھایا۔ مہاجروں کو کہاکہ وی سی آر اور ٹی وی فروخت کر کے کلاشکوف خریدیں۔
مہاجروں سے کہا کہ حقوق یا موت ۔کراچی اور حیدر آباد کی دیواروں پر دکھایا گیا کہ ایک آدمی کلاشکوف پکڑے کھڑا ہے اور ایک آدمی نیچے گلہ کٹا پڑا ہے اور نیچے لکھاہواہے مہاجرقومی موومنٹ۔ اسی پر مہاجر قومی موومنٹ کے عروج پر کراچی کے مشہوراوررہنما جماعت اسلامی (مرحوم)پروفیسرعبدالغفور صاحب نے کہاتھا کہ عجیب ہیں ہمارے لوگ کہ پاکستان بنانے پر تلے تو پاکستان بنا کر دکھا دیا اور مہاجر قومیت کے پیچھے پڑے تو مہاجر بن کر انتہا پسند بن گے۔ لسانی تنظیم بنانے کے بعد (مرحوم )جی ایم سید سے تعلوقات قائم کیے۔ڈیکٹیٹرضیاء کے وزیر اعلیٰ سندھ غوث علی شاہ صاحب کے دور میں ایم کیو ایم نے خوب طاقت پکڑی۔ ڈکٹیٹرضیا نے بٹھو کو عدالت کے ذریعے پھانسی چھڑایا تھا اور وہ پیپلز پارٹی سے خوف زدہ تھا اور اسی لیے وہ مہاجر موومنٹ اور جیے سندھ کی مدد کر رہا تھا۔
مہاجر اور سندھی قوم پرستوں نے اس دور میںنعرہ لگایا گیا تھاکہ سندھی مہاجر بھائی بھائی نسوار اور دوھتی کہاں سے آئی ۔پورے سندھ میں جی ایم سید کے ساتھ مل کر اس نفرت کو خوب پھیلایا گیا اس پر جی ایم سید نے کہا تھا جو کام میں چالیس سالوں میں نہ کر سکا تھاوہی کام الطاف حسین نے چالیس دنوں میں کر دکھایا۔ایم کیو ایم کے توڑ میں پیپلز پارٹی نے (مرحوم)غلام سرور صاحب کو پی پی آئی(پنجابی پٹھان اتحاد) بنانے کا کہا ۔ پھرکراچی میں دونوں نے ظلم اور ستم کا بازار گرم کیا لوگوںکے گھروں کو آگ لگادی گئی۔اس کے بعد ایک منصوبے سے سندھیوں سے لڑائی لڑی گئی تا کہ اندرون سندھ سے مہاجر سندھ کے شہروں یاکراچی آجائیں اور ووٹ بنک بڑھے۔ حیدر آباد کا ٣٠ اکتوبر کا مہاجروں اور ٣١ اکتوبر کراچی کے مچھیروں کا قتل عام اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ایم کیو ایم نے لسانیت کی بنیاد پر سندھ کے شہری علاقوں میں کامیابی حاصل کی تو اس اپنی قوت کو بڑھانے کے لیے ہرطریقہ اختیار کیا۔
حکومت کے اداروں اور کراچی کے لوکل گورنمنٹ کے اداروں میں اپنے حلف یافتہ کارکنوں کو نوکریاں دلائیںڈکٹیٹر مشرف کے دور میں اپنی مرضی کی حلقہ بندیاں اور سیکٹر آفسوں میں بیٹھ کر انتخابی ووٹرز لسٹوں کی تیاری کی۔ایک ایک گھر میں تین تین سو افراد کا اندراج کیا ۔دوسری قوموں کے لوگوں کے ووٹ اِدھر اُدھر پھیلا دیے۔ اس پر احتجاج کرتے ہوئے سندھ کی سب سیاسی جماعتوں نے کراچی سے اسلام آباد تک احتجاجی ٹرین مارچ کیا تھا ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ دیا کہ حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹوں کو الیکشن کمیشن فوج کو ساتھ رکھ کردرست کرے جو آج تک نہیں کیا گیا اسی ووٹر لسٹوں پر موجودہ انتخاب ہوا۔ شہر میں خوف ہراس پھیلانے کے لئے ذرا ذرا سی بات پر اسلحہ کے زور پر سیکڑوں ہڑتالایں کرو ائی ۔پورے شہر کو یرغمال بنا لیاگیا۔ کرپشن،قتل غارت، لوٹ مار ،بھتہ خوری،ہدافی قتل(ٹارگت کلنگ)بوری بند لاشیں۔ٹھپہ مافیہ، پارکوں پر قبضے، چائنا کٹنگ،منی لانڈرنگ کر کے لندن قیادت کو فنڈ بھیجا۔ اپنا عسکری ونگ قائم کیا جس کی نشان دہی سپریم کورٹ نے بھی کی تھی۔
عسکری ونگ کیا یہاں تو سارے کارکنوں کے ہاتھ میں ناٹو کنٹینر لوٹ کر اسلحہ دے دیا گیا جس کو رینجرز نے پکڑا تھا۔ ایسے ایسے مظالم رائج کیے گئے کہ جس سے انسانیت کاپنے لگے مثلاً مخالفوں کے گھٹنوں پر ڈرل مشینیں چلاناوغیرہ۔ ان مظالم سے اگر شہریوں کی جان چھرانے کے لیے ان کے دہشت گردوں کے خلاف اگر ملک کی مسلح افواج نے آپریشن کیا تو واویلہ مچانا شروع کر دیا کہ ظلم ہو گیا ہے جب خود کراچی شہر کے بیس ہزار سے زائد شہریوں کو بے گناہ قتل کر دیا تو کوئی بات نہیں اگر ان قتل کرنے والے دہشت گردوں کو پکڑنے اور سزا دینے کے آپریشن شروع کیا تو کہا کہ ہمیں دیوار سے لگایا جارہا ہے۔پہلے آپریشن میں حصہ لینے والے پویس والوں کو چن چن کو قتل کر دیا ۔ایک ٹی وی پروگرام میں اینکر کے سوال پر الطاف حسین نے اعتراف کیا تھا کہ تھا کہ ان پولیس والوں کو اِن لوگوں نے قتل کیا تھاجن کو اُنہوں نے قتل کیا تھا۔ را سے فنڈنگ لینا۔ کارکنوں کا بھارت جا کر دہشت گردی کی ٹرنینگ لینا۔
آئی ایس آئی اور رینجرز کے چیف کے خلاف سرے عام دھمکیاں دینا۔کیا کیا بیان کیا جائے۔ اقوام متحدہ اور ناٹو سے مدد مانگنا۔ ملک کے وزیر اعظم کے اقوام متحدہ میں تقریر کے دوران پاکستان کے خلاف مظاہرہ کرنا ۔اُسی دوران امریکا حکام سے مدد مانگنا اور اخبارات میں خبر لگنا کی امریکا اور برطانیہ نے ایم کیو ایم کو سیاسی سرگرمیاںجاری رکھنے کے لیے پاکستان کو ہدایات کیں ہیں۔پھر اس کے بعد اسمبلیوں سے استعفوں کا واپس ہونا۔
قارئین! اگر اوپر بیان کی گئی کہانی میں کچھ صداقت ہے جس میں خوف وہراس کی فضا برقرار ہو۔ پولینگ اسٹیشنوں میں اپنے حلف شدہ سرکاری ملازمین کارکنوں کو پریزائیڈنگ اور اسسنٹ پریزایڈنگ افسروں کا تعینات کروانا جو کہیںکہ ایم کیو ایم کی بات نہ مان ہمیں اپنی جان اور خاندان کی جان خطرے میں نہیں ڈالنی۔ کچھ جعلی پولنگ آفیسرز بھی پکڑے گئے ہیں۔سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود وہی پرانی حلقہ بندیاں اور ووٹر لسٹیں پر انتخابات کا ہونا۔ پولنگ ایشنوں کے اندر جہاں ٹھپے لگتے ہیں وہاں رینجرز کو تعینات نہ کرنا اور رینجرز کا باہر صرف امن قائم کرنے میں مصروف رہنا۔
ریکارڈ دھاندلی کے لیے ایم کیو ایم کو فری ہینڈ دینا اور الیکشن کمیشن کا تماشہ ی دیکھتے رہنا اور کراچی کے ایک مشہور پاکستان سے محبت کرنے والے اخبار کی سرخی کہ غیر جانبداری کے نام پر خفیہ سہلولت کاری نے متحدہ کو جتوا دیا کیونکہ وفاقی حکومت،وزیر داخلہ اور ا لیکشن کمیشن نے رینجرز کودھاندلی روکنے کا مینڈیٹ نہیں دیا تھا۔ اور پھر ان سب باتوں کے ساتھ پاکستان کے نام پر نہیں، صرف مہاجر ازم کے نام پر ووٹ مانگنا تو پھر پاکستان ازم تو ہارے گا اور مہاجر ازم جیتے گا جیسے ایم کیو ایم پھر جیت گئی۔
تحریر: میر افسر امان؛ کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان اسلام آباد(سی سی پی)