کراچی میں زیادہ تر ایمبولینسوں میں ابتدائی طبی امداد کی سہولت موجو دنہیں، ماہرین کے مطابق 65 فیصد مریض یا زخمی ایمبولینس میں دوران سفر ابتدائی طبی امداد نہ ملنے کے باعث انتقال کرجاتے ہیں ۔
گزشتہ سال بھی ہیٹ اسٹروک کے دوران شہر میں نجی اداروں کی جانب سے بچھایا گیا ایمبولینسوں کا جال شہریوں کی جان نہیں بچا پایا تھا ۔ دنیا بھر میں ایمبولینس ابتدائی طبی امداد فراہم کرتے ہوئے زخمی یا مریض کو اسپتال پہنچانے والی شے کا نام ہے، مگر کراچی میں بدقسمتی سے بیشتر ایمبولینس میت گاڑی سے کم نہیں۔ کراچی میں ڈرائیور اور اسٹریچر والی گاڑی کا نام ایمبولینس رکھ دیا گیا ہے،جس میں ڈاکٹر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ہیلپر، کئی ایمبولینس ڈرائیور تو یہ بھی نہیں جانتے کہ فرسٹ ایڈ کس چڑیا کا نام ہے جبکہ اکثر گاڑیوں میں آکسیجن سلنڈر بھی خالی ہوتے ہیں۔ شہر میں ایدھی ویلفیئر کی 400 چھیپا ویلفیئر کی 150 ، کے کے ایف کی کی 50ایمبولینسیں موجود ہیں مگر افسوس ان میں سے بیشتر ایمبولینس میں ڈاکٹر توکیا نیم طبی عملہ بھی نہیں ہوتا۔ سابق صدر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق طبی امداد نہ ملنے کے باعث 65 فیصد اموات دوران سفر ایمبولینس میں ہی ہوجاتی ہیں۔ شہر میں ممکنہ ہیٹ اسٹروک سے متاثر شہریوں کی جان بچانے کے لئے طبی ماہرین کے مطابق ایمبولینس سروس کو اپ گریڈ کرنا ہوگا،ڈرائیورز کی تربیت اور ایمبولینس میں ہیلپر کی موجودگی کو یقینی بنانا ہوگا۔