تحریر : محمد ارشد قریشی
روشنیوں کا شہر کراچی کچرے سے بھرا شہر بننے لگا کراچی شہر کی سڑکوں پر دن بدن بڑھتے کوڑا کرکٹ اور کچرے کا ڈھیر اور ا س سے اٹھتی بدبو اور تعفن شہری انتظامیہ کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ صحت اور ماحول کی بہتری کے لیے کام کرنیوالے ادارے نیشنل فورم آف انوائرمنٹ اینڈ ہیلتھ کے مطابق روزانہ کراچی میں 10 ہزار ٹن سے زیادہ کچرا جمع ہوجاتا ہے جسے ٹھکانے لگانا شہری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، مگر افسوس کہ گذشتہ کئی سالوں سے 50 فیصد بھی کچرہ ٹھکانے نہیں لگایا جارہا ہے۔ کراچی کو صاف کرنے کے دعوے تو بہت ہوئے لیکن عملی طور پر کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آیا ،سندھ حکومت کی جانب سے بھی کئی دفعہ کراچی کو صاف کرنے کے دعوے کیئے گئے کبھی تین دن کی بات کی گئی تو کبھی ایک ہفتے کی لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔ کچرے میں روز بروز ہوتا اضافہ کسی بھی خطرناک صورتحال کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے ابھی کراچی میں موسمی بارش بھی زیادہ نہیں ہوئی شدید بارشوں کی پیشن گوئیاں بھی کی جارہی ہیں۔
برساتی نالوں کا یہ حال ہے کہ اب وہ نظر بھی نہیں آتے کہ ان کا کوئی وجود بھی ہے کہ نہیں آخر ہوگا کیا اگر شدید بارشیں ہوگئیں اور پانی کی نکاسی نہ ہوئی تو یہ کچرے کے ڈھیر شہر کی سڑکوں پر تیرتے نظر آئیں گے اس شہر میں پہلے ہی مکھی مچھروں کی بہتات ہے کوئی مکھی مچھر کش اسپرے اس شہر میں زمانے سے نہیں کیا گیا صورتحال انتہائی گھمبیر ہوتی جارہی ہے اور حکومت خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔ کچھ عرصے پہلے شہر کراچی کی سب سے بڑی جماعت ایم کیوایم نے بھی صفائی مہم شروع کی اور شہر کا کچھ کچرا ہی ٹھکانے لگا تھا کہ مہم کو اچانک یہ کہہ کر بند کردیا گیا کہ صفائی مہم میں حصہ لینے والے ہمارے کارکنوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔
لہذا ہمارے لیئے صفائی مہم جارہ رکھنا ممکن نہیں ساتھ ہی یہ شکوہ بھی کیا گیا کہ کچرا اٹھانے والی گاڑیوں کو حکومت سندھ نے تحویل میں لیے لیا ہے۔کراچی کے شہری اچھی طرح جانتے ہیں کہ عید قربان پر اس شہر میں جانوروں کی آلائش کی وجہ سے مزید غلاظت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اب عید قربان بھی زیادہ دور نہیں،ادارے ہوش کے ناخن لیں یہاں رہنے والی عوام ٹیکس دیتی ہے یوٹیلیٹی بل جمع کراتی ہے ان کو بنیادی سہولیات دینا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔
پاکستانی سیاست میں نووارد ہونے والی نئی سیاسی جماعت پاک سر زمین کے سربراہ نے بھی حکومت کو کراچی صاف کرنے کا الٹی میٹم دیا اور پھر وہ بھی خاموش ہوگئے حا لانکہ مصطفی کمال بہتر جانتے ہیں کہ اس شہر کو کس طرح صاف کیا جاسکتا ہے جس کا اظہار انہوں نے اپنی کئی پریس کانفرنسوں میں بھی کیا تھا مگر وہی بات کہ صرف باتیں عملی طور پر کچھ نہیں پھر ستم ظریفی کہیے یا اس شہر کے باسیوں کی بدقسمتی کہیے اگر کوئی عملی طور پر کام شروع کرتا بھی ہے تو اس کو اس قدر مسائل میں پھنسا دیا جاتا ہے کہ وہ بھی خاموش تماشائی بن جانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ فکس اٹ کے عالمگیر نے جب یہ بیڑہ اٹھایا تو انہیں سلاخوں کے پیچھے کردیا گیا،ایم کیو ایم جس کو یہ کام کرنے کی زمہ داری اس شہر کے باسیوں نے سونپی وہ اپنے مسائل میں گھری ہوئی ہے ،بھاری مینڈیٹ سے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے باوجود ایم کیو ایم اختیارات نہ ملنے کا رونا روتی ہے۔
اس شہر کے شہریوں نے اپنے ووٹ کی طاقت سے شہری حکومت کے نمائیندوں کا چناؤ کیا وسیم اختر ایم کیو ایم کے مئیر نامز ہوئے لوگ منتظر ہی تھے کہ کب اس شہر کی کنجی نامزد مئیر کو دی جائیگی تاکہ ان کے مسائل حل ہوں شہر صاف ہو مگر اسی مئیر کے ہاتھوں میں چابی کی جگہ ہتھکڑی نظر آئی اب جس شہر کے مئیر کے ہاتھ بندھے ہیں وہ بھلا کیا شہر صاف کرے گا، سیاسی اختلافات ایک جگہ لیکن تاریخ گواہ ہے اس شہر میں ایم این اے اور ایم پی اے جھاڑو لگاتے تھے ہفتہ وار صفائی مہم کی جاتی تھیں قائداعظم کے مزار سمیت شہر کی چورنگیوں کو کیمیکل سے دھویا جاتا تھا شہر میں کوڑا کرکٹ نام کی چیز نظر نہیں آتی تھی کیونکہ شہر میں شہری حکومت کا بااختیار اور مربوط نظام موجود تھا چاہے اس شہر کا مئیر عبدالستار افغانی ہو یا فاروق ستار، نعمت اللہ خان ہویا مصطفی کمال کبھی شہر کی حالت اس طرح نہیں ہوئی جس طرح آج ہے۔
نعمت اللہ خان، فاروق ستار اور مصطفی کمال جانتے ہیں کہ اس شہر کو کیسے صاف کرنا ہے جماعت اسلامی اور متحدہ قومی مومنٹ کے علاوہ اب اس شہر میں پی ٹی آئی کا بھی ووٹر موجود ہے کیوں نہ اس شہر کی خاطر پہلے تمام جماعتیں اپنا دل صاف کرلیں پھر سب مل کر اس شہر کو صاف کریں ہر پارٹی اپنے جلسوں کے لیئے کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے وہی پیسہ کبھی کبھار اس شہر کی صفائی ستھرائی پر استمال کرلیا جائے۔حکومت کو بھی چاہیئے کہ منتخب نمائیندوں کو فی الفور اختیارات سونپے جائیں تاکہ وہ کام کرسکیں۔صفائی نصف ایمان ہے اور سیاست میں رہتے ہوئے نصف ایمان حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ اس شہر کے مسائل سے اپنی سیاست کو زندہ نہ رکھیں خدارا دلوں کو صاف کرکے ایک ساتھ اٹھ کھڑے ہوں اس سے پہلے کہ یہ مسائل قابو سے باہر ہوجائیں، یقین جانیں یہ شہر چند ہفتوں میں صاف ہوجائے گا۔
تحریر : محمد ارشد قریشی