کراچی کے علاقے منگھوپیر میں مارے جانے والے تینوں دہشتگردوں کا تعلق القاعدہ ، داعش اور تحریک طالبان سوات سے تھا۔
سلمان عرف یاسر کا تعلق کالعدم تحریک طالبان سوات سے تھا۔ اس نے 2008میں پاک فوج کے چار اہلکاروں کو یرغمال بنانے کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف خودکش حملوں کی منصوبہ بندی اور وارداتوں میں ملوث رہا۔
نومبر2012میں رینجرز کے نارتھ ناظم آباد ہیڈکوارٹرز پر دھماکا کیا گیا تھا جس میں تین اہلکار نشانہ بنے تھے یہ اس دہشتگردی کی واردات کا حصہ رہا ہے۔ شہر میں پولیس اہلکاروں اور سیاسی کارکنوں سمیت 10افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث رہا۔
2013میں سائٹ میں اے این پی کے رہنما بشیر جان کے ڈیرے کے باہر رکشہ دھماکا کرنے میں بھی ملوث ہے جس میں 9فراد نشانہ بنے تھے۔ ملزم بھتہ خوری اور خود کش جیکٹس کی ترسیل میں بھی ملوث رہا۔
محمد حسین عرف مستری پٹھان کا تعلق داعش سے تھا یہ دہشتگرد سانحہ صفورہ کا اہم حصہ تھا، سانحہ صفورہ میں اسماعیلی برادری کی بس پر فائرنگ کے دوران16خواتین سمیت46افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
ستمبر2014میں حیدر آباد میں دو پولیس اہلکاروں کو قتل کیا، اکتوبر2014میں حیدر آباد میں ایک بنک ڈکیتی کی تھی جس میں 19لاکھ روپے لوٹے گئے تھے۔
محمد سلمان عرف عرف شرمیلا پٹھان کا تعلق القاعدہ اور کالعدم تحریک طالبان کے لیے مشترکہ طور پر کام کرتا تھا، یہ سانحہ صفورہ میں بھی ملوث تھا جبکہ اس نے کراچی پولیس کی موبائلوں اور 2014میں عائشہ منزل کے قریب واقع امام بارگاہ پر دستی بم حملے بھی کیے ، یہی ملزم حیدر آباد کی بنک ڈکیتی میں بھی ملوث تھا۔