تحریر: مزمل احمد فیروزی
اکثر ہم یہ سنتے رہتے ہیں کہ اب کتاب کا رحجان ختم ہو گیا اب کتب بینی ماند پڑ گئی ہے مگر جب ہم مبشر زیدی جیسے لوگوں کی کتاب رونمائی دیکھتے ہیں چاہے وہ لاہور میں ہو یا کراچی میں تو یقین نہیں آتا مگر کراچی کے تین روزہ ادبی میلے میں تین دن گزار کر تو اب ہمیں حق الیقین ہو چلا ہے کتاب کے چاہنے والے کم نہیں ہوئے بلکہ دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں اور جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ کتاب کلچر پروان نہیں چڑھ رہا وہ سراسر غلط کہتے ہیں پاکستان میں نہ کتاب کلچر ختم ہوا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے ، کتب کی آج بھی اپنی جگہ قدر ہے مگر لوگ معیاری کتب خریدنا چاہتے ہیں۔
کراچی ادبی میلہ کتابوں کا خزانہ اور ثقافت کا میلہ تین روز تک محبان کتب و ادب کو تسکین پہنچانے کے بعد کراچی ادبی میلے کی بانی آمنہ سعید کے پیغام پر اختتام پزیر ہوا ،میلے میں لگ بھگ دنیا بھر سے 38مما لک جس میں امریکہ ،فرانس ہندوستان سے شریک 250 ادیبوں ، شاعروں اور مقررین نے خطاب کرتے ہوئے لٹریچر کی اہمیت کو اجاگر کیا جبکہ 21نئی کتابوں کا رونمائی بھی کی گئی تین روزہ ادبی میلے میںصبح سے شا م تک تھیٹر میوزک ،ادب،مشاعرے اور کتب سے محبت کر نے والے لطف اندوذہو تے رہے ۔ کتب اسٹالز کی طرف بے انتہا رش تھا بڑی تعداد میں نوجوان کتب خریدتے نظر آئے لوگ سستی نہیں اچھی کتب تلاش کرتے رہے ،کتاب خرید نے والوں کہنا تھا کہ آن لائن کتاب پڑھنے سے وہ مزہ نہیں آتا جو لیٹ کر کتاب پڑھنے میں آتا ہے جب کتاب ہاتھ میں ہو اور اس کالمس محسوس ہو تو پڑھنے کا مزا آتا ہے۔
نوجوانوں سائنس فکشن، فنون لطیفہ ،سفرنامے اور انگلش ادب کی کتب لوگ خریدتے نظرآئے جب کہ الگ الگ سیشنز میں مقررین اپنے اظہار خیال کرتے ہوئے نوجوانوں کو ادب پڑھنے اور لکھنے کی تلقین کرتے رہے، مقررین نے آرٹ میں بدلائو اور موویز کی ذریعے پیدا ہونے والی معاشرتی و سماجی تبدیلیوں اور پاکستانی اور انڈین ڈراموں پر بھی ب روشنی ڈالی ۔ وطن عزیز کی نامور ادیب حسینہ معین نے اپنے سیشن میں کہاکہ ڈائجسٹ لکھنے والوں نے پاکستانی خواتین کی کردار سازی کی اور ہمارے ٹی وی ڈراموں نے آنے ولی نئی نسل کی خواتین کو بھٹکا نا شروع کردیا ،بے تحاشہ مصروفیات اور جد ید دور میں بھی دُور دُور سے لوگوں کا آنا اس بات کی واضح مثال ہیکہ ادب ابھی زندہ ہے۔
جہاں ملک بھر سے شعراء و ادبی شخصیات اس میلے میں شرکت کیلئے آئی وہی غیر ملکی شخصیات بھی میلے میں آنے والے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے بھارت سے آئے ہوئے ایک خواجہ سرا لکشمی نرائن جوا یک کتاب کی مصنف ہیںا نہوںنے پاک بھارت متعلق اپنے بیان میں کہا کہ اگر آپ پانی میں لاٹھی لے کر مارے گے تو کیا پانی الگ ہو جائے گا ،چاہے بھارت اور پاکستان کی سرحدیں الگ ہیں مگر ہمارے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں ان کی باتوں نے وہاں موجود لوگوں کے دل جیت لئے۔
تینوں دن لوگ اپنی پسندیدہ شخصیات کے ساتھ تصاویر بناتے رہے جبکہ ایک نوجون طبقہ ایسا بھی تھا جو تصویر بنانے کے بعد ہم سے سیل فون میں تصاویر دکھا کر ادیبوں اور شاعروں کے نا م ہی پوچھتا رہا اس کی وجہ جو ہمیں سمجھ آئی وہ یہ تھی کہ ہمارا نوجوان طبقہ ادب سے تو محبت کرتا ہے مگر ابھی ادیبوں سے نا آشنا ہے اس کی وجہ ہمارے پرانے زمانے کے لوگ سوشل میڈیا پر نہیں ہے مگر اس طرح کے مواقع ان جونیئرز اور سنیئرز کے درمیان پل کا کردار اد ا کریں گے اور یہ اپنے محسنوں کو صحیح معنوں میں پہچان سکے گے مگر زیادہ تر حاضرین جن سے ہماری بات ہوئی جو ادبی حلقوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہ اب ایک ادبی میلے کے ساتھ ساتھ تفریحی میلہ بنتا جارہا ہے جبھی اس میں کامیڈی کے ساتھ ساتھ میوزک کا بھی اہتمام تھا اور نوجوانوں کی بھرپور شرکت نے اسے تفریح پروگرام بنادیا۔
جبکہ ایک نجی یونیورسٹی میں ایم بی اے کے طالبعلم توقیر رئوف نے بتایا کہ ہمیں توہماری انگلش کی ٹیچر نے بتایا تھا تو ہم بھی چلے آئے مگر یہاں آکر بہت مزہ آیا ور ادب کو بے ادبی سے ہوتے دیکھا جبکہ ایک اور طالبہ کا کہنا تھا کہ ایسی بات نہیں ہے صرف” مین گارڈن” میں تفریح کا سماء ہے باقی دوسری جگہ بہت معلوماتی گفتگو ہو رہی ہے انہوں نے” کالمز سے ا اردو بلاگرز تک “کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وصعت اللہ خان صاحب اور مبشر علی زیدی کا زبردست تجزیہ سننے کو ملا اور کئی نوجوان مشاعرے کی تعریف کرتے نظر آئے۔ تمام باتوں کے باوجود کراچی میں اس طرح کے فیسٹول کا انعقاد امن قائم کرنے میں بہترین معاون ثابت ہو گا۔دل والوں کے شہر کراچی کو فخر ہے کہ وہ ہر سال اتنا زبردست ادبی میلہ سجاتے ہیں چاہے اب لوگ اس کو تفریحی میلہ کہے یاادبی مگر یہاں سیکھنے اور سیکھانے کا موقع سب کو ہی ملتا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے کراچی والوں کو آٹھویں ادبی میلے کا انتظار شدت سے رہے گا۔۔
تحریر: مزمل احمد فیروزی