کراچی……….گذشتہ کئی برسوں سے زوال کا شکار پاکستانی فلمی صنعت حالیہ چند برسوں میں اپنی کھوئی ہوئی منزل کو پانے میں کامیاب نظر آتی ہے۔ کراچی کے نوجوان فلمسازوں اور ہدایتکاروں نے پاکستانی فلمی صنعت کو زندہ کردیا۔
ال ہی میں اختتام پذیر ہونے والا 2015ء پاکستانی سنیما کے مکمل احیاء کا سال ثابت ہوا ہے۔اس سال مجموعی طور پر 43فلمیں نمائش کے لئےپیش ہوئیں جو تعداد کے لحاظ سے گذشتہ 8برسوں میں سب سے زیادہ تھیں۔ان میں سے 29فلمیں لاہورمیں بنائی گئیں جبکہ کراچی میں تیار ہونے والی فلموں کی تعداد صرف 14تھی۔
لاہور کی فلموں میں 6اُردو فلموں کے علاوہ 18پشتو اور 5پنجابی فلمیں بھی شامل تھیںجبکہ کراچی کی تمام فلمیں اردو زبان میں بنائی گئی تھیں۔2015ءکے دوران 10فلموں نے ایک،ایک کروڑ روپےسے زائد کا بزنس کیا جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس سلسلے میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یہ تمام فلمیں کراچی میں بنائی گئی تھیں اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ان کے ہدایت کاروں کو فلم بنانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔تاہم یہ سب کے سب تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جو ٹی وی ڈرامے،کمر شلز اور میوزک ویڈیوز تیا ر کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ افراد باہر سے فلم میکنگ اور ڈائرکشن کی تربیت اور اسناد لے کر آئےہیں۔اِن نئے ہدایت کاروں اور فلم سازوں کی بنائی ہوئی فلمیں لالی وُوڈ کی فارمولا فلموں اور بالی وُوڈ کی مسالہ فلموں سے مختلف نظر آئیں۔ کچھ فلمیں سماجی اور عوامی مسائل پر بنائی گئیں جیسے مور، بِن روئے سوارنگیاور گُڈ مارننگ کراچی دو بائیو پِک فلمیں تھیں جیسے منٹو اور شاہ۔ایک ہارر مووی مایا تھی اور چند خالص تفریحی فلمیں جیسے ہلّہ گُلّہکراچی سے لاہوررانگ نمبرجلیبی دیکھ مگر پیار سے اور جوانی پھر نہیں آنی۔ ان کے علاوہ پاکستان کی پہلی اینیمیٹڈ فلم تین بہادر بھی اسی سال ریلیز ہوئی۔
بزنس کے اعتبار سے جوانی پھر نہیں آنی سال 2015ء کی سب سے بڑی فلم ثابت ہوئی جو پاکستان کے علاوہ متحدہ عرب امارات میں بھی ریلیز کی گئی۔ اس نے اندرونِ ملک 39کروڑ اور مجموعی طور پر 46 کروڑ44 لاکھ روپے کا بزنس کیا جو پاکستانی فلمی تاریخ کا ریکارڈ ہے۔یہ بحیثیت ہدایت کار ندیم بیگ کی پہلی فلم تھی۔ اس سے قبل وہ کئی ٹی وی ڈرامہ سیریلز ڈائریکٹ کر چکے تھے۔زیادہ بزنس کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر بِن روئے رہی جو پاکستان کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک اور بھارت میں بھی نمائش پذیر ہوئی۔ اس نے مقامی طور پر 10کروڑ 85لاکھ اورمجموعی طور پر30کروڑ 75لاکھ روپے کا بزنس کیا۔تیسرے نمبر پر ٹی وی اداکار و ہدایت کار یاسر نواز کیرانگ نمبر رہی جس نے 15کروڑ روپے کا بزنس کیا۔یاسر اس سے پہلے جیو فلمز کے لئے فلم انجمن کا ری میک ڈائریکٹ کر چکے ہیں۔فلم جلیبی بزنس کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر رہی جس نے مقامی طور پر 7کروڑ10لاکھ اور مجموعی طور پرساڑھے 10کروڑ روپے کا بزنس کیا۔یہ یاسر جسوال کی ہدایت کار کی حیثیت سے پہلی فلم تھی۔جسوال گلوکار، موسیقار ، رائٹر اور فوٹو گرافر ہیں اور کئی میوزک ویڈیوز بناچکے ہیں۔ ٹی وی اداکار، ہدایت کار اور اسکرپٹ رائٹر وجاہت رئوف نے بھی پہلی مرتبہ فلم ڈائرکٹ کی۔یہ ایک روڈ فلم کراچی سے لاہور تھی جس نے 10کروڑ 30لاکھ روپے کا بزنس کیا اور پانچویں نمبر پر رہی۔آسکر ایوارڈ یافتہ فلم میکر شرمین عبید چنائے نے تین بہادر کے نام سےتھری ڈی اینیمیٹڈ فلم بنائی۔ یہ فیملی ایڈونچر فلم تھی جو خاص طور پر بچّوں کے لئےبنائی گئی تھی مگر بڑوں نے بھی اسے بے حد پسند کیا۔اس فلم نے مقامی طور پر 6کروڑ 63لاکھ اور مجموعی طور پر پونے 7کروڑ روپے کا بزنس کیا اور اس لحاظ سے چھٹے نمبر پر رہی۔ شرمین عالمی شہرت یافتہ صحافی اور فلم میکر ہیں جو معاشرتی و سیاسی مسائل پر کئی دستاویزی فلمیں بنا کر دنیا بھر سے داد ہائے تحسین وصول کرچکی ہیں۔ ان کی ایک دستاویزی فلم سانگ آف لاہورآسکر ایوارڈ کی نام زدگی کے لئے پیش کی گئی ہے۔ جیو فلمز کی منٹو معروف ادیب سعادت حسن منٹو پر بنائی گئی بایو پک فلم تھی جس نے 5کروڑ روپےسے زائد کا بزنس کیا۔ یہ بے حد معیاری فلم تھی جو پاکستان بھر کے سنیما گھروں میں ریلیز ہونے کے علاوہ مختلف بین الا قوامی فلمی میلوں میں بھی دکھائی گئی جہاں اسے بے حد پذیرائی ملی۔اس نے حال ہی میں بھارت کے جےپُور انٹر نیشنل فلم فیسٹول میںدو ایوارڈز حاصل کئے۔ان میں ایک بہترین اداکار کا ایوارڈ فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والےسرمد سلطان کھوسٹ کے لئے تھا جو اس کے ہدایت کار بھی تھے۔ وہ اس سے قبل جیو فلمز کے لئے فلم آئینہ کا ری میک ڈائریکٹ کر چکے ہیں۔آٹھویں نمبر پر بزنس کرنے والی فلم دیکھ مگر پیار سے تھی جس نے 2کروڑ 24لاکھ روپے کمائے۔یہ اشتہاری فلمیں بنانے والے اسدالحق کی ہدایت کار کی حیثیت سے پہلی فلم تھی۔ہارر مووی مایا نے دو کروڑ روپے کا بزنس کیا۔یہ بطور ہدایت کار جواد بشیر کی پہلی فلم تھی۔ وہ ٹیلیویژن کے گلوکار، اداکار اور ہدایت کار ہیں جو سِٹ کام بنانے میں شہرت رکھتے ہیں۔
میوزک ویڈیوز اور کمر شلز کے ہدایت کار جمشید محمود رضا، جو جامی کے نام سے معروف ہیں، نے فلم مور بنائی جس نے ایک کروڑ 85لاکھ روپے کا بزنس کیا۔جامی اس سے قبل فلم آپریشن 021 بنا چکے ہیں۔اس فلم کو سنجیدہ حلقوں کی جانب سے بےحد پذیرائی ملی۔ اسے بُوسان انٹرنیشنل فلم فیسٹول میں بھی سراہا گیا۔پاکستان کی جانب سےمور کوبہترین غیر ملکی فلم کی کیٹیگری میںآسکر ایوارڈ کی نام زدگی کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔
ان 10کامیاب فلموں نے پاکستانی فلمی صنعت کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ان کے ہدایت کاروں نے فلموں کا تجربہ نہ ہونے کے باوجود بہترین صلاحیتوں کا اظہار کیا۔یہ تمام فلمیں کراچی میں بنائی گئیں جبکہ لاہور میں بنائی گئی فلموں میں چند پشتو فلموں کے سوا کوئی بھی فلم کامیابی سے ہم کنار نہ ہوسکی۔ان ناکام فلموں کے ہدایت کاروں میں سید نور اور سنگیتا جیسے لالی وُوڈ کے تجربہ کار ہدایت کار بھی شامل تھے۔ سید نور کی اردو فلم صنم اورسنگیتا کی پنجابی فلم لہوریا تے پشوریا ناکامی سے دو چار ہوئیں۔ اب یہ دونوں ہدایت کار بھی کراچی میںفلم بنارہے ہیں کیونکہ وہ اس شہر کو فلم سازی کے لئے زیادہ سازگار سمجھتے ہیں۔لگتا ہے کہ لاہور جہاں گذشتہ 90برس سے فلمیں بنائی جارہی ہیں اور جو آزادی کے بعد سے پاکستان کا سب سے بڑا فلمی مرکز رہا ہے اب اپنی برتری کھوتا جارہا ہے۔وہ پاکستانی فلمی صنعت کے احیاء میں بھی ناکام ہو چکا ہے جبکہ کراچی کے چند ناتجربہ کار مگر باصلاحیت اور پُرجوش سرپِھروں نے پاکستانی سنیما کو پھر سے ترقی کی راہ پر گام زن کردیا ہے۔