counter easy hit

موسم بدل رہا ہے پیارے, کراچی کے دروازوں پر پاکستان زندہ باد کی دستکیں

karachi,paksitan,zindabad,on,knocking,the,door

karachi,paksitan,zindabad,on,knocking,the,door

آج کل کراچی میں جس کسی کے دروازے پر دستک ہو یا گھنٹی بجے تو اندر سے پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ دروازہ کھولنے والا مسلسل نعرے لگاتا ہوا آتا ہے۔ اس نیک کام سے پچھلے کئی سالوں کی کسرپوری ہورہی ہے۔ ویسے تو ایم کیو ایم کے کارکنوں نے اپنے قول و فعل سے تضادات کو آشکار کردیا، مگر انہیں یہ خیال نہیں کہ ان پر نظر رکھنے والے اتنے سادہ نہیں ہیں۔ اسلام آباد میں یہ افواہیں عام ہیں کہ ایم کیو ایم چکر دینے کے چکر میں ہے، اسی لئے فاروق ستار وغیرہ نے ایم کیو ایم کے قائد کی تصاویر ہٹائیں، نام ہٹایا مگر یہ سب کچھ باہر بیٹھے ہوئےمعزول قائد اور حکومت وقت کی مرضی سے ہوا۔ دلائل دینے والے کہتے ہیں کہ ان کی متنازع تقریر پر حکومت کئی گھنٹے سوئی رہی پھر ایک واجبی سا بیان سامنے آیا۔ حکومت اور ایم کیو ایم کی ملی بھگت اس قدر ہے کہ وفاقی کابینہ کے گھنٹوں جاری رہنے والے اجلاس میں ایک مرتبہ بھی متحدہ کے قائد کی مذمت نہیں کی گئی۔ ایم کیو ایم کی طرف سے لگائے گئے پاکستان مخالف نعروں پر ایم کیو ایم کی مذمت نہیں کی گئی۔منڈیوں کے بھائو بتانے والے وزیر خاموش رہے، ایک وزیر جو بولنے کا کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے انہوں نے ثواب سمجھ کر کلبھوشن پر بیان بازی نہ کی، وہ اچکزئی کی بدحواسیوں پر خاموش رہے۔ وہ مودی کی چالوں پر بھی خاموش رہتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے بارے میں بھی انہوں نے لب کشائی نہیں کی، جب بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے والوں کو پھانسیاں ہورہی تھیں وہ چپ رہا، حتیٰ کہ جب اجیت کمار دوول اس رہنما کے گھر پر ڈرائنگ روم میں باتیں کررہا تھا وہ خاموش رہا۔ اب ثبوت لہرانے پر اس وزیر کو عدالت یاد آگئی ہے اگر وہ عدالت گئے اور مخالفین وزیر بہادر کی پاکستان اور قائد اعظم سے متعلق آج تک کی ،کی گئی باتوں کا ریکارڈ لے آئے تو…….؟چونکہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری سیاسی کے علاوہ مذہبی رہنما بھی ہیں اگر وہ کوئی مذہب کے حوالے سے بات لے آئے تو……؟تو پھر بہت کچھ نہیں رہےگا، پرانے مقدمات دوبارہ سر اٹھائے گے۔
آپ پر حکمرانوں کی سوچ اور کس طرح آشکار ہوگی کہ ان کا منظور نظرمحمود اچکزئی پاکستان کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے۔ ایم کیو ایم سے ہر وقت محبت جگانے والے حکمرانوں کو پاکستان کی مخالفت میں لگائے گئے نعروں پر مذمت کی توفیق نہ ہوسکی۔ مقام افسوس تو یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی حکمرانوں کو آج سے پہلے ایم کیو ایم کے ناجائز دفاتر بھی نظر نہ آسکے۔
تین ستمبر کو لاہور اور پنڈی میں بڑ ےسیاسی اجتماع ہوئے۔ راولپنڈی میں شیخ رشید احمد گرجے، ڈاکٹر طاہر القادری نے بے شمار ثبوتوں کا ڈھیر لگادیا اور حامد رضا نے جذبات کو ابھارا جبکہ لاہور میں عمران خان نے پورے لاہور کو جگائے رکھا۔ عمران خان نے جگہ جگہ ملکی لوٹ مار کی داستانیں بیان کیں۔ حساب مانگا، کئی پول کھول دئیے۔ دونوں ریلیاں بہت کامیاب تھیں، ایک احتساب مارچ تھا، ایک قصاص مارچ تھا اور اس کے ساتھ شیخ رشید کا نجات مارچ۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے ملکی سالمیت کے حوالے سے بڑی اہم باتیں کیں۔ میں ان کی انہی باتوں کا تذکرہ کروں گا جو روزنامہ جنگ میں شائع ہوئیں۔ مثلاً قادری صاحب فرمارہے تھے بلکہ جنرل راحیل شریف کو ان کا وعدہ یاد کروارہے تھے کہ انہوں نے جو ایف آئی آر درج کروائی تھی اس پر انصاف ہونا باقی ہے۔ وقت کے خطیب نے شب کے آنگن میں پکارا کہ جنرل راحیل شریف سوچیں، اگر وہ ریٹائر ہوگئے تو شہیدوں کو انصاف کون دلوائے گا؟ …….شہدائے ماڈل ٹائون کے تذکرے کے ساتھ ہی شیخ الاسلام نے ایک اور مقدمہ قوم کے سامنے رکھ دیا۔ یہ مقدمہ ملکی سالمیت کا ہے، اسے سن کر ہر پاکستانی کا دل جذبات سے بے قابو ہوا کیونکہ ہر سچے اور کھرے پاکستانی کے دل میں ایک ہی جذبہ ہے، صرف پاکستان ، پاکستان پر جان قربان۔شب اپنے نصف سے ایک قدم آگے بڑھی تو خطابت کے جوہر دکھاتے ہوئے علامہ طاہر القادری نے حکمرانوں پر بعض سنگین الزامات عائد کئےاور اس حوالے سے دستاویزات بھی لہرائے۔
دھرنوں اور تحریکوں کے خلاف باتیں کرنے والوں کے لئے یاد ماضی سے چند حقائق پیش خدمت ہیں، مثلاً 21فروری2009ءکے اخبارات میں میاں نواز شریف کا یہ بیان بڑی سرخی کے ساتھ شائع ہوا کہ ’’…..دھرنا دیں گے، ایک قدم آگے بھی جائیں گے‘‘ پھر مارچ کے پہلے ہفتے میں یعنی تین مارچ2009ءکو ان کا بیان اخبارات کی زینت بنا کہ’’لانگ مارچ اور دھرنے کو کوئی نہیں روک سکتا……..‘‘ اسی مہینے ان کا اور بیان سامنے آیا کہ….’’ہماری حکومت آنے والی ہے، جسٹس افتخار بحال ہوں گے، ملک اور عدلیہ کو زرداری پر نہیں چھوڑ سکتے‘‘۔ چھ مارچ 2009ء کو مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ملک بھر میں ریلیوں کا اہتمام کیا گیا۔ احتجاج ہوا، روڈ بلاک ہوئے، نہیں مانتے کے نعرے لگائے گئے، جو ریلی چیئرنگ کراس پر تھی اس سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے فرمایا کہ….’’قوم کی تقدیر کا فیصلہ اب سڑکوں پر ہوگا‘‘ خود کو جمہوریت کے چیمپئن سمجھنے والوں کیلئے نمونہ پیش خدمت ہے۔ مارچ 2009ء میں میاں نواز شریف نے فیصل آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا …….’’زرداری کی چابی والی عدلیہ اور پارلیمنٹ نہیں چلنے دیں گے‘‘، پھر2012ءمیں لندن روانگی کے وقت مسلم لیگی قائد نے فرمایا…..’’حکمران جواز کھو چکے، نیا مینڈیٹ ناگزیر ہے‘‘۔2012ءہی میں میاں نواز شریف نے شاہ کوٹ میں اپنے خطاب میں بڑا لطیفہ یہ سنایا کہ…..’’حلال کمانے والا چپراسی ،قانون شکن وزیر اعظم سے بہتر ہے، گالیوں سے گھبرانے والا نہیں، ملک کے لوٹے ہوئے اربوں ڈالر واپس وطن لانے کیلئے جدوجہد جاری رکھوں گا‘‘۔
آپ ماضی کے آئینے کو سامنے رکھیں اور پھر سوچیں کہ کیا عمران خان کے مطالبات ناجائز ہیں یا ڈاکٹر طاہر القادری کی باتیں غلط ہیں۔ میرے پیارے دوست بودی شاہ کی اطلاع ہے کہ…….’’آرمی چیف نہیں جارہے ، جنرل راحیل شریف اپنا مشن جاری رکھیں گے‘‘۔ آخری بات یہ ہے کہ موسم بدل رہا ہے، احتساب کا موسم شروع ہونے والا ہے۔ بینڈ باجے بجانے والے خاموش ہوجائیں گے، محسن بھوپالی کا شعر ہے کہ؎
ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو
الزام جو دینا ہو، سرعام دیا جائے 

بشکریہ جنگ

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website