تحریر : عمران چنگیزی
پاکستان کی تاریخ میں جمہوریت کے زیر سایہ پہلی بار سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بلدیاتی انتخابات کی تکمیل کے بعد اتوار کے دن شائع ہونے والے بیشتر اخبارات نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے خبر کی اشاعت کیلئے ”ایم کیو ایم نے پھر کراچی کو فتح کرلیا “ کی شہ سرخی کا استعمال کیا ہے جسے یقینا درست نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ایم کیو ایم کسی حملہ آور قبیلے یا دشمن ریاست کا نام ہے اور نہ انتخاب کسی جنگ یا حملے کا نام ہے بلکہ متحدہ قومی موومنٹ عوام میں مضبوط جڑوں کی حامل ایک ایسی عوامی ‘ سیاسی اور جمہوری جماعت ہے جس نے جمہوریت و آمریت ہہر دو ادوار میں انتخابات میں فتح کے ذریعے اپنی عوامی مقبولیت و حمایت کو ثابت کیا ہے۔
گو ماضی میں اس حوالے سے متحدہ پر انتخابی فتح کیلئے دھاندلی ‘ غنڈہ عناصر و اسلحہ کی قوت کے استعمال ‘ جبری ووٹوں کے حصول اورا نتخابی عملے کی ساز باز کے علاوہ ایجنسیوں کی آشیر باد کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے مگر اس بار جب کراچی میں امن کی بحالی و قیام کیلئے جاری مستحسن آپریشن کا اصل ہدف متحدہ اپنے آپ کو گردانتے ہوئے اس آپریشن پر جانبداری کے الزامات لگاتی رہی اور میڈیا کی آنکھ و زبان متحدہ کے مرکز سمیت یونٹ و سیکٹر آفسز پر رینجرز کے چھاپوں اور گرفتاریوں کی اطلاعات و خبریں عوام تک پہنچاتی رہی جبکہ الیکشن کمیشن و حکومت کی جانب سے سیاسی جماعتوں کی ایماءو خواہش پر انتخابی عمل کیلئے رینجرز کو خصوصی اختیارات کے ساتھ پولنگ اسٹیشن پر تعینات بھی کردیا گیا۔
الیکٹرونک میڈیا کے نمائندگان ہر پولنگ اسٹیشن پر دھاندلی کے حوالے سے بریکنگ نیوز کی تلاش میں اپنی دونوں اور کیمرے کی خفیہ آنکھ کے ساتھ ہر پولنگ اسٹیشن ‘ پولنگ ایجنٹ اور پولنگ آفیسر کو کھنگالتے دکھائی دیئے تو متحدہ کیلئے ان حالات میں دھاندلی کرنا تو درکنار اپنے ووٹرز کو ٹرانسپورٹ فراہم کرکے پولنگ اسٹیشن تک پہنچانا بھی ممکن نہیں رہا مگر اس کے باوجود دہشتگردی و بد امنی اور قتل و غارت و خونریزی کے خطرات و خدشات کے باوجودعوام نے گھروں سے نکل کر پولنگ اسٹیشن تک رسائی حاصل کی اور آزادی کے ساتھ اپنی مرضی و منشاءکی قیادت کے انتخاب کیلئے اپنا ووٹ استعال کرکے قومی فریضہ ادا کیا جس کیلئے کراچی کے عوام مبارک و تحسین کے مستحق ہیں جبکہ اس فریضے کی ادائیگی کیلئے امن قائم کرنے اور ماحول سازگار بنانے کا۔
تمام تر کریڈٹ رینجرز و سیکورٹی اداروں اور بالخصوص ڈی جی رینجرز کو جاتا ہے جنہوں نے انتخابات سے قبل عوام کو مکمل امن و تحفظ کی فراہمی کی یقین دہانی کراتے ہوئے گھروں سے نکل کر ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی جبکہ عوام نے اس ترغیب و تحفظ کی فراہمی پر متحدہ سے محبت کا اظہار اور اس پر اعتماد کرتے ہوئے ووٹ کے ذریعے اس کا انتخاب کیااورمیڈیا پر رپورٹ کئے جانے والے غیرحتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق کراچی کی 209میں سے 196یونین کونسلز کے موصول شدہ نتائج میں متحدہ قومی موومنٹ نے138نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے میئر بنانے کا اختیار حاصل کرلیا ہے جبکہ حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی جانب سے بلدیاتی انتخابات سے چند روز قبل پانی و سیوریج لائنوں کی تنصیب ‘ سڑکوں کی تعمیر ‘ صفائی ستھرائی کے بہترین اقدامات اور دیگر ترقیاتی امور کی انجام دہی کے باوجود صرف 32نشستوں پر پیپلز پارٹی کی فتح کراچی میں اس کے مستقبل کے حوالے سے خطرناک ہے۔
جماعت اسلامی کو ملنے والی 11نشستیں ہڑتال‘ احتجاج ‘ دھرنوں اور مظاہروں کے علاوہ جماعت اسلامی کی بلدیاتی سیاست میں واپسی کا بھی اشارہ ہیں جبکہ کراچی کی عوام کو آزاد کرانے کی دعویدار تحریک انصاف کی صرف7نشستوں پر کامیابی دھرنوں ‘ دعووں ‘ الزامات اور مغلظات کی سیاست سے عوامی بیزاری اور موجودہ پاکستان سے کراچی کی عوام کی محبت کا ثبوت ہے جس سے عمران خان کو یہ جان لینا چاہئے کہ کراچی کے عوام نہ تو طالبان کے حامی ‘ نہ نیا پاکستان چاہتے ہیں اور نہ ہی بے محارآزادی کے طالب ہیں کیونکہ وہ محبان پاکستان ہیں البتہ استحصالی نظام ‘ کرپشن‘ طبقاتی تضاد اور قومی خزانے کی لوٹ مار سے ضرور تائب ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کے مسائل صرف عوام میں سے ہی منتخب ہوکر آنے والے غریب افراد ہی حل کرسکتے ہیں اسی لئے انہوں نے متحدہ پر اعتماد کیا جس نے طبقاتی تضاد اور اسٹیٹس کو سے نجات کیلئے ہمیشہ غریب و تعلیم یافتہ اور عام افراد کو آگے بڑھایا ہے جبکہ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت سے اراکین پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی امیدواران تک سب کی سب سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔
کراچی کے عوام سرمایہ داروں کو مسترد کرنے کی روایت پر کاربند دکھائی دے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ صرف تحریک انصاف کے کپتان علی زیدی ہی کلین بولڈ ہوکر اپنی نشست سے محروم نہیں ہوئے بلکہ پیپلز پارٹی کراچی کے صدر نجمی عالم بھی عوامی حمایت سے محروم دکھائی دیئے اور جماعت اسلامی کے کراچی کے صدر حافظ نعیم الرحمان پر بھی عوام نے اعتماد کرنے سے انکار کردیا رہی بات مسلم لیگ (ن) کی تو 209نشستوں کے نتائج شدہ 196نشستوں میں سے صرف 4پر کامیابی کا حصول اسے کسی شمار و قطار میں شامل نہیں کرتا البتہ پیپلز پارٹی کے گڑھ لیاری سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے زیر اثر علاقوں سے آزاد امیدواروں کی فتح متحدہ ‘ پیپلزپارٹی ‘ جماعت اسلامی ‘ تحریک انصاف اور ن لیگ سمیت دیگر تمام سیاسی و جمہوری قوتوں کیلئے فکر انگیز ہونی چاہئے کیونکہ آزاد امیدواروں کی فتح سیاسی جماعتوں اور ان کی کارکردگی ‘ وعدوں اور دعوو ¿ں پر عوام کے عدم اعتماد کا اظہار ہے۔
بلدیاتی انتخابات سے سامنے آنے والا یہ رجحان بڑھ گیا تو نہ تو سیاسی جماعتوں کے حق میں بہتر ہوگا اور نہ ہی ملک و قوم کے مستقبل کیلئے سازگار ہوگا اسلئے تمام سیاسی جماعتوں اور جمہوری قوتوں کو اپنے قول و فعل کے تضاد کو ختم کرکے کارکردگی کو بہتر بنانے پر توجہ دینی ہوگی ۔درجن بھر نشستوں کے نتائج ابھی باقی ہیں مگر اس کے باوجود متحدہ کی 135نشستوں پر کامیابی نے اس کیلئے کراچی میں ”اپنا “ میئر لانے کی راہ ہموار کردی ہے جبکہ میئر کے دونوں متوقع امیدوار ریحان ہاشمی اور وسیم اختر انتخابی کامیابی کے حصول میں بھی کامیاب رہے ہیں اسلئے عوام کی جانب سے شدت سے میئر کا نام سامنے آنے کا انتظار مگر متحدہ کی سابقہ روایت و تاریخ کے پیش نظر راقم کا خیال ہے کہ میئر کراچی کے حوالے سے متحدہ اس بار بھی عوام کو سرپرائز دے گی اور معروف سیاسی رہنما کی بجائے غریب و غیر معروف بلدیاتی نمائندے کو میئر کی مسند پر بٹھاکر عوامی جماعت ہونے کا ثبوت دے گی جبکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس بار متحدہ آزاد امیدواروں میں سے کسی ایک کو میئر بناکر ایک نئی سیاسی ومستحسن روایت کی بنیاد ڈالے۔
میئر کراچی جو بھی ہو یہ بات تو طے ہے کہ استحصالی طبقات پر مشتمل حکمران طبقے میں بلدیاتی قیادت کو بے اختیار بنانے کیلئے بلدیاتی قوانین میں جو ترامیم کردی ہیں ان کے بعد بلدیاتی قیادت اور نمائندوں کیلئے عوامی امنگوں ‘ ضروریات اور خواہشات کے علاوہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کراچی کی تعمیرو ترقی اور عوام کی خدمت ممکن نہ ہوگی اسلئے عوام نے متحدہ کو بلدیاتی انتخابات میں بھاری اکثریت کی فراہمی اور میئر کے انتخاب کا موقع دیکر متحدہ کوامتحانی کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے مگر متحدہ کی تنظیم سازی ‘ نظم و ضبط ‘ اس میں شامل تعلیم یافتہ طبقات اور اس کی سیاسی تاریخ اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ”ذرا سی نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز سے ساقی “ © ۔ اور بقول تجزیہ نگار جاوید چوہدری اگر متحدہ قانون شکن عناصر ‘ سیکورٹی اداروں کی ناپسندیدہ شخصیات اور مفاد پرست و جرائم پیشہ افراد سے چھٹکارہ پالے تو ایک ایسی جماعت ہے جو فنڈز کے بناءبھی کراچی کے عوام کے مسائل کے حل اور کراچی کو پھر سے میگا سٹی بنانے تاریخ ہرانے کی اہلیت رکھتی ہے۔
یقینا متحدہ ماضی کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے کراچی کے عوام کو امن تحفظ ‘ بلدیاتی سہولیات کی فراہمی اور مسائل کے حل کیلئے خدمت عوام کی فکر وفلسفہ الطاف کو فروغ دےتے ہوئے افعال ‘ اعمال ‘ کرداراور عوامی خدمت و ترقی کے ذریعے اپنے اوپر لگنے اور لگائے جانے والے تمام داغ دھوکر ثابت کردے گی کہ وہ کراچی فتح کرنے والی دشمن طاقت نہیں بلکہ عوام کے دلوں کو تسخیر کرنے والی محبوب قوت ہے۔
دوسری جانب مرکزی صوبائی حکومتوں سے بھی یہی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ عصری تقاضوں کے پیش نظر جمہوری رویئے کے ذریعے تعمیرو ترقی کے ہر عمل میں بلدیاتی حکومتوں سے بھرپور تعاون کریں گی اور انہیں زیادہ سے زیادہ وسائل و اختیارات کی فراہمی کے ذریعے جمہوری انداز سے منتخب ہونے کے باوجود اپنے اوپر لگائے جانے والے آمرانہ انداز کے تمام سیاہ داغ مٹائیں گی جبکہ فتح کے مطلوبہ اہداف سے محروم پیپلز پارٹی ‘ مسلم لیگ (ن) ‘ تحریک انصاف ‘ جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار صرف کراچی ہی میں نہیں بلکہ ہر جگہ عوام کی ترقی اور شہر کی تعمیر کے ہر عمل میں اکثریتی جماعت کا بھرپور ساتھ دیں گی اور روایتی اپوزیشن کی بجائے عوامی اپوزیشن کا کردار ادا کریں گی۔
گو ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ انتخابی نتائج کے آغاز کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے علی زیدی ‘ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن اور پیپلز پارٹی کے نجمی عالم نے متحدہ پر دھاندلی کے الزامات لگانے کے ساتھ کراچی میں امن قائم کرنے والی رینجرز کو بھی اپنی شکست اور متحدہ کی فتح کا ذمہ دار ٹہرادیا اور بہتان تراشی کی روایت یقینا یہیں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ جلد ہی شکست خوردہ یا متوقع عوامی حمایت سے محروم جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات و بہتان میں تیزی اور وسعت آئے گی اور درجہ بدرجہ یہ روایت اعلیٰ ترین قیادت تک پہنچتی دکھائی دے گی مگر اس کے باوجود راقم رب کے حضور اصلاح و ہدایت اور بہتری کی دعا تو کرسکتا ہے کیونکہ قادر مطلق فرعون سے بھی موسیٰ کی حفاظت کا وصف و قدرت رکھتا ہے۔
تحریر : عمران چنگیزی