تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
سندھ کی سیاست میں موجودہ ٹار گیٹیڈ آپریشن کے نتیجے میں جو ناہمواریاں پیدا ہونا شروع ہو گئی ہیں ۔ان کی وجہ سے بعض ایسے غنڈا عناصر جن کو ماضی میں اداروں کی بھر پور اور مکمل حمایت بھی ایم کیو ایم کے خاتمے کی غرض سے حاصل تھی۔ مگر عوام میں ان کی جڑیں نہ ہونے کی وجہ سے اور خاص طور پر ان کی غنڈا گردی اور پہلے سے کہیں زیادہ جارہ انہ طریقے پر لوٹ مار کی وجہ سے انہیں عوام میں کہیں بھی پذیر ائی نہیں تھی۔ اس کی شائد بڑی وجہ اداروں کے ذریعے ان عناصر کو فعال کرایا جانا تھا۔ان لوگوں نے سندھ کے شہری علاقوں میں جو تباہی قتل و غارت گری مچائی تھی اُس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
ان عناصر کے ہاتھوں یہان کسی بھی شریف شہری کی عزت محفوظ نہ تھی اور لوگوں کا جینا محال ہو چکا تھا۔ انہیں اجازت تھی کہ جہاں چاہیں جس کی چاہیں پگڑی اچھال کر رکھ دیں۔ پولیس کو انکے خلاف پرچہ کاٹنے کی اجازت نہ تھی۔ پولس کی جانب سے انہیں پوری جاسوسی فراہم کر دی جاتی تھی کہ کس نے ان کے خلاف تھانے میں کمپلین درج کرانے کی جسارت کی ہے۔اس کے بعد اُس شخص اور اُس کے خاندان کا آفاقی غنڈے جو حشر کرتے تھے وہ ان سطور میں بیاننہیں کیا جاسکتا ہے۔ آج پھر آفاق احمد جیسے سیاسی یتیم کو اگر پھر ایجنسیوں نے ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ تو یہ یقین کر لینا چاہئے کہ ہم سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ کوئی بھلائی نہیں کر رہے ہونگے۔مگر اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں ہے کہ ہمارے ادارے ٹار گیٹیڈ آپریشن سے روک دیئے جائیں ۔
مجھے یاد ہے کراچی پر ان کے قبضے کے دوران جو الیکشن ہوئے تو میں کراچی میں ملیر کے علاقے کے ایک پولنگ اسٹیشن پر میں پرزائڈنگ آفیسر کی ڈیوٹی پر تعینات تھا۔الیکشن پروسس شروع ہوا تو ایک سوکھا سا لڑاکا جس کی عمر مشکل سے بیس سالہو گی۔میرے اسٹیشن پر جعلی ووٹ بھگتانے کی غرض سے آیا ۔میرے ایک پولنگ آفیسر نے اسے میرے پاس بھیجدیا ۔میں نے اُس کی آمد کی وجہ پوچھی تو اس نے بڑے رعب دار لہجے میں کہا کہ ووٹوں کی پرچی کی ایک بک چاہئے۔
میں نے جوباََ کہا کہ یہ تو سرکاری کاغذ ہیں جس میں سے صرف ایک لیف ایک ووٹر کو اپنی شناخت بتانے پردیا جاتا ہے۔میں پوری بک آپ کو کس حوالے سے دیدوں؟ اس پر وہ کانگڑی سا لڑکا غصے میں آگ بگولہ ہو کر بولا کہ حوالہ اگر میں تمہیں بتا دوں تو ابھی تمہاری ٹانگیں کانپنے لگیں گی….(وہ حوالہ تھا ایم کیو ایم حقیقی کے آفاق احمدکا)اس کی اس بد اخلاقی پرمیرے ایک اور پولنگ آفیسر نے مداخلت کی اور اس کو کسیطرح پولنگ اسٹیشن سے باہر لے گیا تب جاکر میری جان چھوٹی۔
اس وقت ایم کیو ایم کے لوگوں کی مجبوری کہوں یا بد قسمتی کہوں کہ یہ لوگ اپنے اندر سے کریمنلز کو نکالنے سے نا جانے کیوں خوف ذدہ اور ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی قیادت کو اگر سیاست میں رہنا ہے تو یہ کڑوا گھونٹ تو پینا ہی ہوگا۔کیونکہ سُتھری سیاست غندہ اور کریمنلز کے بغیر ہی کی جا سکتی ہے۔شائد ایم کیو ایم کی قیادت کی اکثریت بھی اپنی بقاء اسی میں سمجھتی ہے کہ بھتہ خور اور ٹار گیٹ کلرز ان کی صفوں میں بر قرار رہیں۔ورنہ مجرموں کے لئے اتنی resistance کیوں؟؟؟ کراچی اور سندھ کے اردو اسپیکنگ کو ایم کیو ایم اور اس کی قیادت نے ماضی میں اپنی سندھ میں مضبوط گرفت کے باوجود کوئی قابل رلیف دیا نہکوئی سہولت فراہم کی اور نہ ہی فلاحی یا رفاحی کام کر کے دیئے!
گذشتہ بیس سالوں کے دوران ان لوگوں نے تعلیمی اداروں میں تعلیم کے بجائے ایم کیو ایم کی پروپیگندا نشستوں کے علاوہ کچھ نہیں ہونے دیا۔ جس کا نتیجہ سندھ کے غریب خاندانوں کے شہری بچے تعلیم سے کوسوں دور ہو گئے۔مگر اس طلم کے باوجود آج بھی شہری سندھ اور کراچی کے با شعور لوگ ایم کیو ایم کو ہی اپنی سیاسی جماعت سمجھتے ہوئے سیاست کے میدان میں رکھنا چاہتیے ہیں۔مگر اس کے قائدین میں اس وقت دور اندیشی کا شدید فقدان دکھائی دیتا ہے ۔جس کی وجہ سے وہ اپنے لوگوں کی ماضی کی غلط کاریوں سے کوئی سبق سیکھنا ہی نہیں چاہتی ہے۔
ہمارا ایک مرتبہ پھر ایم کیو ایم کے سنجیدہ لوگوں کو یہ مخلصابہ مشورہ ہے کہ خدارا پنی ضد اور ہٹ دھرمی سے رجوع کر لیں اور اپنے عوام کی رہنمائی کے لیئے نئے عزم سے میدان میں آکر اپنے ووٹروں کی مشکلات کا خاتمہ کر کے کراچی اور سندھ کو ایک مرتبہ پھر امن و آشتی کا گہوارہ اور کراچی کوروشنیوں کا شہربنا دیں۔ اس کے لئے انہیں چاہے کوئی بھی بڑی سے بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے ۔وہ قربانی دے کر سندھ کے مہاجرین کی منزلیں آسان کر دیں۔تو یہ ایم کیو ایم کے سنجیدہ لوگوں کا اپنے شہریوں پر احسانِ عظیم ہوگا۔
بڑی عجیب بات یہ ہے کہ آج ایم کیو ایم حقیقی جس کی پورے پاکستان میں کہیں بھی ذرہ برابر بھی کوئی سیاسی یا سماجی حیثیت واہمیت نہیں۔ اس کے پالتو غنڈا عناصر کراچی کے بعض علاقوں میں پھر سے پر پرزے نکال کرسر اٹھا نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہم سجھتے ہیں کہ اگر یہ لوگ ایجنسیوں کے پے رول پر پھر سے کھل کھیلنا شروع کر رہے ہیں تو یہ ہماری سب سے بڑی بد قسمتی ہوگی۔ایم کیو ایم کے مد مقابل کسی کو لانا سوائے قومی نقصانات کے کچھ نہیں ہو گا۔یہ لوگ ایک مرتبہ پھر لائنز ایریا لانڈھی اور کورنگی میں عوام اور علاقے کے دکانداروں کودھونس،دھمکیاں دینے لگ گئے ہیں۔دھمکیوں کے ذریعے لوگوں کو بلوا کر میٹنگز بھی کرانے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔جن پر ابھی تو لوگوں کی توجہ نہیں ہے۔
رینجرز اور پولس کے سربراہان کو اس بات کا بھی فوری نوٹس لے کر اپنی غیر جانبداری کا ثبوت دینا چاہئے۔کوئی اگر یہ سجھتا ہے کہ ایم کیو ایم کو منظر سے ہٹا کر حقیقی غنڈوں کے ہاتھ میں کراچی اور سندھ کو دیدیا جائے ۔تویہ سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ انتہائی خطر ناک دشمنی ہوگی۔کیونکہ ماضی میں ساری قوم ان غنڈون کے کردار کی بھی گواہ ہے ۔جس بھتہ خوری اور ٹاگیٹ کلنگز کے خلاف ہمارے ادارے دن رات قربانیاں دے رہے ہیں وہ تمام قربانیاں رائے گاں چلی جائیںگی ۔ اور سندھ کے شہری مزید بھتہ خوری اور ٹاگیٹ کلنگز کا شکار ہوتے رہیں گے۔لہٰذا ایم کیو ایم کو ختم کرنے اور حقیقی کو فعال کرنے کا تصور بھی نقصان دہ ہوگا۔
ڈی جی رینجرز اور آئی جی، ڈی آئی جی پولیس کو حقیقی کے دہشت گردوںکی جانب بھی بھر پور توجہ دینی چاہئے۔ تاکہ اس آپریشن کی غیر جانبداری پر حرف نہ آسکے اور عوام کا جو اعتماد اس وقت ادروں کو حاصل ہے وہ اسی طرح برقرار رہے۔تاکہ قوم کو یہ اندازہ بھی ہو سکے کہ موجودہ آپریشن واقعئی دہشت گردوں ٹارگیٹ کلرز اور بھتہ خوروں کے خلاف ہے یہ کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو ہٹا کر کسی کو بٹھانا اس کا مقصد ہے۔
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
03333001671
shabbir23khurshid@gmail.com