کراچی ’سول وار‘: پاکستانی صارفین نے ’خانہ جنگی جیسی صورتحال‘ کے انڈین دعوؤں کا مقابلہ کیسے کیا؟
اگر آپ سوشل میڈیا پر موجود قیاس آرائیوں پر جائیں تو پاکستان میں گذشتہ چند دنوں سے ’خانہ جنگی کی صورتحال‘ ہے۔ حقیقت میں ایسا کچھ ہوا یا نہیں ہوا، لیکن سوشل میڈیا صارفین کے لیے تو سنی سنائی باتیں ہی کافی ہوتی ہیں۔ لیکن سنی سنائی پر تکیہ کرنے والوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا اور اکثر شرمندگی اور پشیمانی ہی ان کا مقدر بنتی ہے۔ جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان سوشل میڈیا کے محاذ پر چھڑنے والی جنگ نے ایک نیا موڑ لیا اور انڈین صارفین نے پاکستان میں ’خانہ جنگی کی صورتحال‘ کے بارے میں غیر مصدقہ معلومات پھیلانا شروع کیں تو ان کی اصلاح کرنے کے بجائے پاکستانی صارفین کو مستی سوجھی۔ اکثر پاکستانی صارفین یہ جانتے ہوں گے کہ یہ کوئی اسسٹنٹ سب انسپیکٹر نہیں بلکہ رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت ہیں
’کرانچی‘ اور ’گلشنِ باغ‘ میں کیا ہو رہا ہے؟
گذشتہ چند دنوں کے دوران کچھ انڈین ٹوئٹر اکاؤنٹس، جن میں انڈین میڈیا کے کچھ مصدقہ اکاؤنٹس بھی شامل ہیں، نے پاکستان میں خانہ جنگی سے متعلق خبریں شیئر کیں تو متعدد پاکستانی صارفین نے ہیش ٹیگ ’سول وار ان پاکستان‘، ’سول وار ان کراچی‘، ’گلشن باغ‘ اور طنز و مزاح کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے کراچی میں خانہ جنگی کی فرضی منظر کشی شروع کر دی۔ بس فرق یہ تھا کہ ان ہیش ٹیگز کے ساتھ استعمال ہونے والی تصاویر اور معلومات درست نہیں تھیں۔ حالانکہ بی بی سی کے نامہ نگار عابد حسین اپنی رپورٹ میں بتا چکے ہیں کہ خانہ جنگی اور ہلاکتوں سے متعلق ان خبروں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اسی حوالے سے متعدد سوشل میڈیا صارفین نے یہ شکایت ٹوئٹر سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک بھی پہنچائی کہ یہ ‘فیک نیوز’ یعنی غلط خبر ہے۔ متعدد صارفین نے ’گلشن باغ‘ اور ’اجیج آباد‘ میں جنگی صورتحال کا ذکر کیا لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس نام کے علاقے کراچی میں پائے ہی نہیں جاتے۔ سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین نے خوب میمز بنا کر اپنی تخلیفی صلاحیتوں سے ایک دوسرے کو ہنسانے کی کوشش بھی کی اور ساتھ ہی ساتھ اپنے حریف کو شش و پنج میں رکھا۔
مثلاً انڈین وکیل پرشانت پٹیل امراؤ نے اپنے اکاؤنٹ سے لکھا: ’پاکستان میں خانہ جنگی جیسی صورتحال ہے۔ کرانچی میں فوج اور پولیس کے درمیان جھڑپ میں کئی افسران ہلاک ہوئے ہیں۔ سندھ میں اکثر پولیس اہلکار چھٹی پر چلے گئے ہیں۔ وہ سندھو دیش کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ عمران خان نے ریڈیو پر قومی ترانے چلانے کا حکم دیا ہے۔‘ جواب میں پاکستانی صارفین نے ان پر طنز و مزاح سے بھرپور میمز کی بھر مار کر دی۔ کچھ صارفین کو خانہ جنگی کی غلط اطلاع سے زیادہ اس بات پر افسوس ہوا کہ ‘آپ نے (کراچی کی جگہ) کرانچی نامی کون سا نیا شہر دریافت کر لیا ہے؟’ بلال سلیم نے لکھا کہ ہم کراچی میں صحیح سلامت ہیں اور اپنے ’بیف برگرز‘ کا انتظار کر رہے ہیں۔ بینا شاہ لکھتی ہیں کہ ‘میں کراچی کی رہائشی ہوں اور ابھی سامان خرید کر آئی ہوں۔۔۔ میں اس خانہ جنگی کو دیکھ نہ پائی۔’ پرشانت کے ٹویٹ پر کوئی ہالی وڈ فلم ایوینجرز کے ‘کیپٹن امریکہ’ اور ‘آئرن مین’ کا حوالہ دیتے نظر آئے تو کسی نے یہ خبر دے ڈالی کے کراچی میں ‘بیٹ مین’ نے اپنی ہنگامی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ صحافی طلعت اسلم نے لکھا کہ انھیں ‘سول وار سے قریب تر چیز سول لائنز تھانہ نظر آیا ہے۔’
تحریک انصاف کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کی ایک تصویر، جس میں انھوں نے فوجی یونیفارم پہن رکھا ہے (ہر پاکستانی کو معلوم ہے یہ کس کی تصویر ہے اور یہ اصل نہیں ہے) کو پاکستان میں میم بنا بہت شیئر کیا گیا۔
اور جب پاکستانی نژاد کینیڈین صحافی طارق فتح نے اسی تصویر کو خبر سمجھ کر ری ٹویٹ کیا تو پاکستانی صارفین لوٹ پوٹ ہوگئے۔ انڈیا میں سی این این نیوز 18 نے بھی یہی غلطی کی۔ ان کے مطابق گذشتہ دنوں پاکستان میں خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی جس میں پاکستانی فوج اور سندھ پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ ایک صارف نے ان کی خبر کے جواب میں لکھا کہ ’صورتحال واقعی بہت خراب ہے، لیکن انڈین میڈیا کی۔‘ بعض پاکستانیوں نے اپنے شہروں میں کھانے پینے کے ان مشہور مقامات کا ذکر کیا جہاں لوگوں کی بھیڑ ’سول وار جیسی افراتفری‘ کی تصویر پیش کرتی ہے۔ اور ایک صارف نے تو یہ تک پوچھ لیا کہ ’گلشنِ باغ میں دو سو گز کا پلاٹ کتنے میں مل جائے گا۔‘
’ہیش ٹیگ ہائی جیکنگ‘ کیا ہے؟
کسی سیاسی، مذہبی یا سماجی گروہ کی جانب سے کسی ہیش ٹیگ کا استعمال اور اسے ٹرینڈ کروانا کوئی نئی بات نہیں اور دنیا بھر کی سیاسی جماعتوں کے حامی اکثر اپنی پارٹی اور رہنماؤں کے حق میں ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرواتے نظر آتے ہیں۔لیکن ‘ہیش ٹیگ ہائی جیکنگ’ ایسا عمل ہے جس کے ذریعے کسی بھی موضوع پر ہونے والی بحث کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔ اس میں کسی مخالف گروہ کے صارفین حریف جماعت کا ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے یا تو اپنا پیغام پھیلاتے ہیں یا اس سے ایسی معلومات شیئر کرتے ہیں جس سے ہیش ٹیگ کا اصل مقصد فوت ہو جائے۔ یہ نہ تو ہیش ٹیگ ہائی جیکنگ کا پہلا واقع ہے اور نہ ہی یہ صرف پاکستان تک محدود ہے۔ اس سے قبل بھی ہمیں ہیش ٹیگ ہائی جیکنگ کی مثالیں دنیا کے دیگر مملک میں ملتی ہیں۔ جب امریکہ میں سیاہ فام شخص جارج فلوئیڈ کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے بعد ہیش ٹیگ ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے ذریعے امریکی میں نسلی امتیاز کے خلاف آواز اٹھائی گئی تو بہت سے سفید فاموں کی بالادستی کے حامی ’وائٹ سپرامسسٹ‘ نے ’بلو لائیوز میٹر‘ کا ہیش ٹیگ متعارف کراتے ہوئے امریکی پولیس کے حقوق کی اہمیت پر زور دینے کی کوشش کی۔
لیکن کوریا کے مشہور بینڈ ’بی ٹی ایس‘ کے فینز نے اس ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے بیلو ویل اور نیلے لباس میں بی ٹی ایس کے گلوکاروں کی تصاویر شیئر کیں تاکہ سوشل میڈیا صارفین اس ہیش ٹیگ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے جب اس پر کلک کریں تو انھیں ’وائٹ سپرامسسٹ‘ سے متعلق ’پراپگینڈہ‘ کے بجائے بی ٹی ایس فینز کی ٹوئٹس نظر آئیں۔ اسی طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جون میں ہونے والی ریلی کو بھی ٹک ٹاک پر بی ٹی ایس کے فینز نے ہائی جیک کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس ریلی کے منتظمین نے ریلی سے قبل دعویٰ کیا کہ ریلی کے دس لاکھ سے زائد ٹکٹ فروخت ہوئے ہیں لیکن ریلی میں شرکا کی اتنی تعداد نظر نہ آئی تو بی ٹی ایس کی فینز نے دعویٰ کیا دراصل انھوں نے اس ریلی کے ٹکٹ بُک کیے تھے۔ اسی طرح یورپ میں دائیں بازو کی متعدد جماعتوں کے حامیوں نے کورونا سے متعلق ہیش ٹیگ کو ہائی جیک کر کے اس سے متعلق مبینہ طور پر غلط معلومات پھیلانے کی کوشش کی۔