کراچی: جامعہ کراچی کی سابق انتظامیہ کی جانب سے اس وقت کے رکن صوبائی اسمبلی اورموجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان کی بی اے کی سند تمام متعلقہ اور انتہائی ضروری تعلیمی دستاویز کی عدم موجودگی میں بھی ’’ویریفائیڈ‘‘ (تصدیق) کیے جانے کا انکشاف ہواہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان سردارثنا اللہ زہری کی بی اے کی سند جامعہ کراچی کے سابق ناظم امتحانات پروفیسر ڈاکٹر ارشد اعظمی کی جانب سے کسی بھی متعلقہ تعلیمی کوائف کے ریکارڈ کی عدم موجودگی کے باوجود تصدیق کے ساتھ اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان کو بھجوائی گئی۔ جامعہ کراچی کے پاس مذکورہ امیدوار کے میٹرک کا سرٹیفکیٹ تھانہ ہی انٹر کی کوئی دستاویز موجود تھی اس بات کا انکشاف حاصل ہونے والی جامعہ کراچی کی ان آفیشل دستاویزات میں ہواہے جس میں ناظم امتحانات کے دستخط اورمہرکے ساتھ اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ سردارثنا اللہ زہری کے کم از کم 9 تعلیمی و دیگر دستاویزات موجود نہیں۔
واضح رہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف اسلام آباد کی جانب سے اراکین اسمبلی کی اسناد کی تصدیق کے لیے جامعات کو ’’ڈگری سپلیمنٹ انفارمیشن فارم‘‘ کے نام سے جو ’’پروفارما‘‘ بھجوایا گیا تھا متعلقہ سند کو اس پروفارمے پر لکھی گئی 9 دستاویزات کے ساتھ تصدیق کیا جانا تھا تاہم متعلقہ پروفارمے پر اس وقت کے ناظم امتحانات نے اپنے دستخط سے اس امرکی وضاحت کی کہ سردار ثناء اللہ زہری کی بی اے کی سند کے لیے ان 9 میں سے کوئی بھی دستاویز جامعہ کراچی کے ریکارڈمیں موجود نہیں ان اسناد میں امیدوارکی ’’شناختی کارڈ کی کاپی، میٹرک اور انٹر کے سرٹیفکیٹ یا اس کے مساوی سرٹیفکیٹ کی کاپی، ریگولر طالب علم ہونے کی صورت میں یونیورسٹی میں داخلے کی تاریخ کا ریکارڈ، پرائیویٹ طالب علم ہونے کی صورت میں رجسٹریشن اور رول نمبر کی تفصیلات، مائیگریشن اور اہلیت کا سرٹیفیکیٹ، ماسٹر ڈگری کی صورت میں بیچلر کی ڈگری اور اس متعلقہ ڈگری کی مارک شیٹ‘‘ شامل تھا تاہم ناظم امتحانات کی جانب سے اس پروفارمے پر دیے گئے ریمارکس کے مطابق متعلقہ امیدوار ثنا اللہ زہری کا مذکورہ ریکارڈ جامعہ کراچی کے متعلقہ سیکشنز میں موجود ہی نہیں۔
یاد رہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئرمین ڈاکٹر جاوید لغاری نے یکم اپریل 2013 کو جامعہ کراچی کے اس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر بعض سابق پارلیمینٹرینز؍ ایم پی ایز کی اسناد کی تصدیق کے لیے سپریم کورٹ کے احکام کے تناظر میں ایک خط تحریر کیا تھا جس میں چار اراکین کی اسناد کے لیے ڈگری سپلیمنٹ انفارمیشن فارم (ڈی ایس آئی ایف) کے ساتھ ساتھ ان کی میٹرک اور انٹر کی اسنادکی تصدیق 4اپریل تک کرنے کے لیے کہا گیا تھا ان ناموں میں موجودہ وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار ثنا زہری حلقہ پی بی 33سمیت دیگرنام بھی موجود تھے ازاں بعد یہ تعداد چار سے بڑھ کر 34 ہو گئی تھی تاہم اس خط کے جواب میں ریمارکس دیتے ہوئے جامعہ کراچی کے اس وقت کے ناظم امتحانات پروفیسر ڈاکٹر ارشد اعظمی نے کہا تھا کہ جامعہ کراچی کے پاس ان متعلقہ ڈگریوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں اگر کمیشن کے پاس یہ ڈگریاں یااس سے متعلقہ کوئی ریکارڈ ہے تو وہ تصدیق کے لیے جامعہ کراچی کو فراہم کرے تاہم اسی اثنا میں ایچ ای سی کے مذکورہ پروفارمے پر سردار ثنا اللہ زہری کی بی اے کی سند کے اجرا کی تاریخ 1991 تحریر کرتے ہوئے کہا گیا کہ جامعہ کراچی کے پاس ڈگری سے متعلق دستاویزات کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
یاد رہے کہ اسی اثنا میں سابق چیئرمین ایچ ای سی پاکستان ڈاکٹر جاوید لغاری کی جانب سے 11 جولائی 2013 کو مزید ایک خط بھیجا گیا جس میں حلقہ این اے 272 سے یعقوب بزنجو اور این اے 107 سے محمد جمیل ملک کی بی اے کی سندکی تصدیق کامعاملہ بھی اٹھایا گیا۔ جامعہ کراچی کی سابق انتظامیہ کا موقف جاننے کے لیے سابق ناظم امتحانات پروفیسر ڈاکٹر ارشد اعظمی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے ریکارڈ کے مطابق اسناد ویری فیکیشن کی تھی جو غلط تھی اسے غلط قرار دیا تھا کوئی دباؤ قبول نہیں کیا تھا انرولمنٹ رجسٹریشن اور ٹیبولیشن چیک کیا جاتا تھا مزید تفصیلات مجھے زبانی یاد نہیں ہے اب میں ناظم امتحانات نہیں ہوں لہٰذا فوری طور پر مذکورہ کیس کی تصدیق نہیں کر سکتا تاہم ان کیسز کو بغور دیکھا گیا تھا اس کے بعد ہی تصدیق کی گئی تھی سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر سے بھی اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ 2013 میں اراکین اسمبلی کی گریجویشن کی شرط ہی ختم ہو چکی تھی یہ کیسز ان سے بھی پرانے کے دور کے ہیں۔