اختر بلوچ کا شمار پاکستان کے اُن چند لکھاریوںمیں ہوتا ہے جو تاریخ کے پوشیدہ حقائق کو منظر عام پر لا کر پاکستانی قوم کے اذہان کے بند دریچوں کو کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی کتاب ’’کرانچی والا‘‘ 224 صفحات پر ہے۔
معروف صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن آئی اے رحمن کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ اس کتاب میں کچھ تذکرہ نوکر شاہی کا بھی شاملِ داستان ہے، آئی اے رحمن مزید لکھتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ سب سے زیادہ دلچسپ اور سبق آموز انکشاف حکومت اور اس کے کارندوں کی سچ کو دبانے کی کوششوں کے بارے میں ہیں۔ قائداعظم کی 11 اگست 1947کی تقریر سنسر کرنے کی کوشش تو اب عوامی یادداشت کا مستقل حصہ بن چکی ہے۔ مس فاطمہ جناح کی ریڈیو پر تقریر اس طرح نشرکی گئی کہ جب قابلِ اعتراض جملے آئے تو مس جناح بولتی رہیں لیکن ٹرانسمیشن بند کردی گئی۔ زیڈ اے بخاری نے معذرت نامہ بھیجا کہ ٹرانسمیشن میں گڑبڑ بجلی کی فراہمی میں تعطل کی وجہ سے ہوئی تھی لیکن بعد ازاں یہ بات غلط ثابت ہوئی۔
وہ ’’ناؤ مل غدار یا محسن سندھ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ سیٹھ ناؤمل ہوت چند سندھ کی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے کہ ان کا نام حذف کردیا جائے تو سندھ کی تاریخ ادھوری رہ جائے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ناؤ مل وہ شخص تھا جس نے سندھ پر انگریزوں کے قبضے کے لیے ان کی مکمل مدد کی۔ وہ ڈاکٹر مبارک علی کے ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر مبارک علی اپنے مضمون ’’کیا ناؤمل غدار تھا‘‘ کے آخر میں لکھتے ہیں کہ معاشرے میں اقلیت کا کردار بہت نازک ہوتا ہے، اگر اقلیت مالی اوراقتصادی لحاظ سے خوشحال ہو تواس کے دشمنوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
اکثر اقلیت کو وطن دشمن اورغدارکہا جاتا ہے، ایسی صورت میں معاشرہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور اقلیت ملک وقوم کی محبت سے دور ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہندوستان اور سندھ میں انگریز حکومت کے قیام میں اقلیتوں کے عدم تحفظ کا بڑا دخل تھا۔ مصنف’’کون سے قائد اعظم‘‘ کے عنوان سے اپنے بلاگ میں لکھتے ہیں کہ جناح صاحب کو عیدگاہ پہنچنے پرکچھ دیر ہوگئی۔
اس موقعے پر گورنر ہاؤس کے عملے نے ظہورالحسن درس سے درخواست کی کہ نماز میںکچھ منٹ کی تاخیر کی جائے تاکہ گورنر جنرل نماز میں شریک ہوجائیں، لیکن ظہور الحسن درس نے انکار کردیا اور نماز شروع کروادی۔ ابھی نمازِ عید کا خطبہ جاری تھا کہ قائد اعظم عیدگاہ پہنچ گئے۔ اگلی صفیں پُر ہوچکی تھیں لہٰذا انھیں آخری صفوں میں جگہ ملی، وہ وہیں بیٹھ گئے اور نماز ادا کی۔ نماز کے بعد عملے کے کچھ لوگوں نے قائد اعظم کے کان بھرنا شروع کیے کہ علامہ صاحب کی ضد کی وجہ سے انھیں پچھلی صفوں میں نماز ادا کرنی پڑی۔ کان بھرنے والے لوگوں کو اس وقت سخت مایوسی ہوئی جب قائد نے کہا کہ پاکستان کو ایسے علماء کی ضرورت ہے ۔
اختر بلوچ ’’موہٹہ پیلس ، قصر فاطمہ نہ بن سکا ‘‘کے عنوان سے موہٹہ پیلس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ عمارت ایک ہندو مارواڑی تاجر رائے بہادرشیورام موہٹہ نے 1933 میں تعمیر کی تھی۔ ہندوستان کے معروف نقشہ سازآغا احمد حسین نے جے پور سے آ کر اس کا ڈیزائن تیار کیا تھا۔ اسے تعمیر کرنے کا مقصد کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ شیو رام کی بیوی ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہوگئی تھی۔ ڈاکٹروں نے علاج تجویزکیا کہ اگر مریضہ کو مسلسل سمندرکی تازہ ہوا میں رکھا جائے تو وہ بالکل صحتیاب ہوسکتی ہے، چنانچہ شیو رام موہٹہ نے یہ قلعہ نما بنگلہ کلفٹن میں تعمیر کروایا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ موہٹہ نے یہ طے کیا تھا کہ وہ تقسیم کے بعد کراچی میں ہی رہیں گے لیکن ایک روز ایک بااثر شخصیت نے ان سے رابطہ کیا اورکہا کہ وہ موہٹہ پیلس خالی کردیں کیوں کہ یہ سرکاری دفتر کے لیے مطلوب ہے۔ موہٹہ یہ سن کر سکتہ میں آگئے اور اسی رات پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور بمبئی منتقل ہوگئے۔
چابیاں اپنے منیجر کے حوالے کیں اور ایک تحریر بھی دی جس میں لکھا تھا کہ وہ یہ عمارت تحفتاً دے رہے ہیں۔ ’’قصہ فاطمہ جناح کی تدفین کا‘‘ کے حوالے سے مصنف لکھتے ہیں کہ فاطمہ جناح نے اپنی زندگی میں یہ خواہش ظاہرکی تھی کہ مرنے کے بعد انھیں قائداعظم کے پاس دفن کیا جائے۔ بقول مرزا ابوالحسن اصفہانی اُس وقت کی حکومت فاطمہ جناح کو میوہ شاہ قبرستان میں دفنانا چاہتی تھی جس کی مخالفت کی گئی اور کمشنر کراچی کو متنبہ کیا گیا کہ اگر فاطمہ کو قائداعظم کے مزار کے قریب دفن نہ کیا گیا تو بلوہ ہوجائے گا۔
کتاب میں ’’ چوہدری محمدعلی بااثر بیوروکریٹ یا معصوم وزیر اعظم ‘‘کے عنوان سے لکھا ہے کہ چوہدری صاحب کو قائداعظم کی 11 اگست والی تقریر پر بھی شکوک وشبہات تھے۔ انھیں یہ گمان تھا کہ جناح صاحب نے جوش جذبات اور جوش خطابت میں جس طرح مسلمانوں اور ہندوؤں کو برابر قرار دیا تھا وہ مناسب نہیں ہے۔ لہٰذا تقریر ختم ہوتے ہی نوکر شاہی متحرک ہوگئی اورتقریرکا پورا متن اخبارات میں شایع ہونے سے روکنے کے لیے کوشش کی گئی۔ ان تمام افراد کی بدقسمتی تھی کہ اس بات کا علم روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کو ہوگیا جن کی مداخلت پر چوہدری محمد علی کی ایماء پر جاری ہونے والی پریس ایڈوائس غیر موثر ہوگئی۔ مصنف ’’پاک امریکا دوستی، وزیراعظم انجن ڈرائیور‘‘ کے موضوع پر لکھتے ہیں کہ محمد علی بوگرا کا امریکا میں اپنی سفارت کے دوران ایک کارنامہ یہ بھی تھا کہ ایک لبنانی لڑکی عالیہ سے اُن کی شناسائی کینیڈا میں ہوئی تھی۔
جب بوگرا صاحب کا تقرر وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے ہوا تو عالیہ بیگم کی تقرری وزیراعظم کے سوشل سیکریٹری کی حیثیت سے ہوئی اور پھر بوگرا نے عالیہ سے شادی کرلی۔ وہ لکھتے ہیںکہ اعلیٰ طبقے کی خواتین نے ایسی تمام سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ شروع کیا جس میں خاتون اوّل مدعو ہوتیں۔ وہ قائداعظم کی کابینہ کے وزیر قانون ’’جوگندرناتھ منڈل: اچھوت اچھوت ہی رہا ‘‘کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ جوگندرناتھ کا تعلق اچھوت طبقے سے تھا۔ وہ مشترکہ ہندوستان کے صوبے بنگال میں وزیرِ قانون تھے۔ 10 اگست 1947کو جب جناح صاحب نے پاکستان کے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف اٹھایا تو آئین ساز اسمبلی کے اس اجلاس کی صدارت منڈل کررہے تھے۔ منڈل نے مارچ 1949 میں قرارداد مقاصد کی حمایت کی۔ 3 جون 1947 کو جب ضلع سلہٹ کے عوام کو یہ طے کرنا تھا کہ آیاوہ بھارت کے ضلع آسام میں شامل رہے گا یا پاکستان کا جزو بنے گا۔
یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کی تعداد میں کچھ زیادہ فرق نہیں تھا۔ قائداعظم کی ہدایت پر منڈل استصواب کے لیے سلہٹ پہنچے اور فیصلہ پاکستان کے حق میں کروا کر لوٹے۔ اختر بلوچ لکھتے ہیں کہ چوہدری محمد علی سیکریٹری جنرل پاکستان کو یہ انکشاف ہوا کہ منڈل کی ملک سے وفاداری مشکوک ہے۔ انھوں نے وفاقی وزیر منڈل سے کابینہ سے اہم کاغذات چھپانے شروع کردیے۔ یہ بات منڈل سے برداشت نہ ہوسکی اور وہ وزارت چھوڑکرکلکتہ چلے گئے۔ کتاب میں ’’انتقامی سیاست کے شکار حسین شہید سہروردی‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ ایک ماہرقانون دان تھے۔
انھوں نے اپنی وکالت دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو حکومت نے انھیں روکنے کے لیے اپنی سازشوں میں اضافہ کردیا۔ کراچی اور لاہورکی عدالتوں کو یہ ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ وکیل کی حیثیت سے انھیں رجسٹر نہ کریں۔ منٹگمری ایک چھوٹا سا شہر تھا جو اب ساہیوال کے نام سے جانا جاتا ہے کی ایک عدالت نے شہید سہروردی کی حیثیت کو قبول کیا۔ کتاب میں ’’پاکستان کا پہلا جلاوطن حشو‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ جنھیں پیار سے’ حشو‘ پکارا جاتا تھا پاکستان کے پہلے سیاسی کارکن تھے جنھیں 1949 میں زبردستی جلاوطن کیا گیا۔ ’’چن (چاند) میں نے کراچی میں تین نغمے آج ریکارڈ کروائے ہیں رات کو آٹھ بجے سن لینا‘‘۔ یہ الفاظ نامور گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں کے تھے جو صدر یحییٰ خان سے ٹیلیفون پر بہت ہی بے تکلفی سے بات کررہی تھیں۔
اس واقعے کے راوی جمیل زبیری ہیں جنہوں نے ریڈیو پاکستان کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارا۔ جمیل زبیری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 1971 میں جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ ہورہی تھی تو اس دوران کس طرح نورجہاں ایک روز لندن سے کراچی پہنچ گئیں اور نغمے ریکارڈ کرانے ریڈیو پاکستان کراچی اسٹیشن آگئیں؟ وہ نغمے ریکارڈ کراکے اسٹوڈیو سے نکلیں اور اسٹیشن ڈائریکٹر طاہر شاہ کے کمرے میں آ کر کہنے لگیںکہ ٹیلیفون یحییٰ خان سے ملوائیں، یوں نور جہاں نے صدر یحییٰ خان سے بات کی اور نغمہ نشرکرنے کا وقت مقررکیا اور صدرکو بتادیا ۔پریشانی یہ تھی کہ اس وقت خبریں نشر ہوتی تھیں۔
اختر بلوچ ایک تخلیق کار ہیں، انھوں نے انتہائی محنت سے بلاگ تحریر کیے ہیں۔ ان بلاگوں کے مجموعے کی اشاعت سے تاریخ کے طالب علموں کو مواد جمع کرنے میں بہت آسانی ہوگی۔ کتاب کی قیمت 300 روپے ہے اور سٹی پریس بک شاپ کے اجمل کمال نے اس کتاب کو بہتر انداز میں شایع کیا ہے۔