تحریر: ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری
سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض میں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد مقیم ہے۔ جو غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی طرح اپنے وطن سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ اور ہر قومی دن کو بڑے جوش خروش سے مناتے ہیں۔ کوئی بھی قومی دن ہو ہوٹلوں ، کیمپوں اور مختلف مقامات پر ہر تنظیم اس دن کو مناتی ہے۔اس یوم اقبال پر بھی بے شمار تقاریب کا اہتمام ہوا۔
معروف علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے حلقہ فکرو فن ریاض کے تعاون سے حکیم الامت علامہ اقبال کے یوم کے حوالے سے اپنی رہائش گاہ ( کاشانہ ٫ادب) پر پروقار تقریب کا اہتمام کیا۔ سفیر پاکستان عزت مٰآب منظور الحق مہمان خصوصی تھے۔ صدارت پروفیسر میمونہ ملک نے کی۔ جاوید اختر جاوید نے نظامت کے فرائض ادا کئے۔ پی آئی اے کے سیلز مینیجر ارشد شیخ اعزازی مہمان تھے۔اور سامعین میں شہر کے معروف ادیب ،شاعر ،اساتذہ اور شہر کے مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اکابرین شامل تھے۔
جاوید اختر جاوید نے پروگرام کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے علامہ ؒکو اپنے الفاظ میں منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ محمد رمضان کی تلاوت قرآن پاک سے تقریب کا آغاز ہوا۔ جس کے بعد عبدالرزاق تبّسم نے علامہ اقبال ؒکا نعتیہ کلام ترنم سے پیش کیا۔ اس کے بعد میزبان ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے “خودی کا تصور” کے زیرِ عنوان مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ خودی فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی انا پرستی، تکبر اور غرور کے ہیں تاہم علامہؒ کے نزدیک خودی ایک نام ہے
احساس غیرت مندی کا، ، جذبہ خودداری کا ،اپنی ذات و صفات کے پاس و احساس کا، اپنی انا کو حراست و شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کا، مظاہرات فطرت سے برسر پِیکار رہنے کا، اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے خودی زندگی کا آغاز، فردو ملّت کی ترقی و تنزلی اور خودی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔ خودی کا تحفظ زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام زندگی کا استحکام ہے۔ازل سے ابد تک زندگی کی کارفرمائی ہے۔ اقبال ؒنے فلسفہء خودی کو اپنی فکر کا مرکزی نقطہ بنایا۔ انہوں نے واضح کیا کہ خودی ذوق تسخیر، خود آگاہی اور ذوق طلب ہے۔
؎ یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی
خودی کے عارفوں کا ہے مقام بادشاہی
تری زندگی اسی سے تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو روسیاہی
اس کے بعد وقار نسیم وامق نے حلقہ فکرو فن کا تعارف کرایا اور کہا کہ یہ تنظیم ۳ دہائیوں قبل منطقہ شرقیہ میں وجود میں آئی تھی۔ آجکل ریاض میں ادبی و ثقافتی محافل منعقد کرتی ہے۔ ڈاکٹر سعید احمد جٹ نے انتہائی دلکش ترنم میں میاں محمد بخشؒ کا کلام پیش کر کے سماں باندھ دیا۔ ڈاکٹر ارم قلبانی نے انگریزی میں علامہ اقبال پر اپنا مضمون پڑھا اور کہا کہ خودی ایک قوت ہے۔ جو اللہ تعالی نے انسان کو عطا کی ہے۔ اور یہ کہ اقبال کا مرد مومن نہ صرف اللہ تعالی کا نائب ہے بلکہ ہر لمحہ اپنی پرواز بلند کرتا ہے۔
محمد صابر قشنگ نے شاعر مشرق پر اپنا منظوم پنجابی کلام پیش کیا اور داد حاصل کی۔ عظمی یاسر نے علامہؒ کی معروف نظم ” ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن” ترنم سے پیش کیا اور سماں باندھ دیا۔
منطقہ شرقیہ سے آئے ہوئے تنویر احمد تنویر نے علامہ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کر کے داد حاصل کی۔
؎مفکر سوچتا ہوں تو مجھے تم یاد آتے ہو
سخن ور سوچتا ہوں تو مجھے تم یاد آتے ہو
مدینہ منورہ سے آئی مہمان شاعرہ ڈاکٹر حنا عنبرین طارق نے اپنا کلام پیش کیا۔
ہر سو گل و گلزار تھے خوشبو تھی چار سو
افسردہ ہے نظر کہ وہ منظر کدھر گئے
اعزازی مہمان محمد ارشد شیخ نے محفل کے انعقاد کو مثبت قدم قرار دیا اور پیش کیے گئے مضامین کی تعریف کی۔ ساجدہ چوہدری نے بھی علامہ اقبال پر منعقد اس اجتماع کو سراہا اور کہا کہ مختلف موضوعات پر اظہار خیال کرنے والی شخصیات بھی اہم تھیں پروفیسر میمونہ ملک نے ” اقبال اور قرآن ” کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خدا شناسی فلسفے سے نہیں عشق سے آتی ہے۔ علامہ اقبال اس بات کا شکوہ کیا کرتے تھے کہ ہند کے علماء اپنی تقاریر اور روز مرہ کے معمولات میں عربی محاورے کا استعمال نہیں کرتے۔ انہوں نے واضع کیا کہ علامہ اقبال نے قرآن کریم کا پیغام سمجھنے میں ۱۵ برس گزارے۔ ان کا ایمان تھا کہ قرآن کریم میں امّت مسلمہ کے سب مسائل کا حل موجود ہے۔
مہمان خصوصی سفیر پاکستان منظور الحق نے کہا کہ اقبال نہ صرف مسلمانان ہند بلکہ ملت اسلامیہ اور ساری انسانیت کے شاعر ہیں۔ انکے مطالعے سے ان کی کئی جہات سامنے آتی ہیں۔ منظور الحق نے کہا کہ علامہ افغانستان کو ایشیاء کا دل قرار دیتے ہوئے واضع کیا تھا کہ دنیا میں امن کا انحصار افغانستان میں امن پر ہو گا۔ ان کی پیشنگوئی درست ثابت ہو رہی ہے۔ لوگوں کو اسلام سے گمراہ کیا جا رہا ہے اور دین لیواؤں کی جان لی جارہی ہے۔
سفیر پاکستان نے کہا کہ آجکل کے حالات کے بارے میں علامہؒ کے کئی اشعار ملتے ہیں۔ لوگ اس بات کے داعی ہوتے ہیں کہ وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ اقبال کی شاعری عمل کی شاعری ہے اور اس میں وہ انسان کی پوشیدہ صلاحیتیں اجاگر کرنے کے لیے خودی کی پہچان کراتا ہے۔ انسان کے اندر بہت صلاحیتیں مخفی ہیں اور اقبال اسے اس کی روحانی عظمتوں کا ادراک کراتے ہوئے اس کا رابطہ اللہ سے استوار کراتےہیں۔
منظور الحق نے واضع کیا کہ جرمن فلسفیوں نطشے اور گوئٹے تو صرف انسان کی مادیت کی بات کرتے ہیں جبکہ اقبال نے روحانیت کی بات بھی کی ہے۔ انہوں نے اقبال ؒکی مقبولیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کے کلام کے تراجم متعدد زبانوں میں ہوئے ہیں۔ جامعہ الا زہر میں لڑکوں اور لڑکیوں کے ۲ مدارس صرف اقبال پر کام کر رہے ہیں۔ تقریباً ہر مصری دانشورنے علامہؒ پر لکھا ہے۔
اقبال کے کلام کا کم از کم ۳ مرتبہ عربی زبان میں ترجمہ ہوا ہے جس میں ہر عالم اور مفکر نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ انہوں نے تقریب کے انعقاد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے حلقہ فکرو فن کی کاوشوں کو سراہا۔ میزبان ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے مہمان خصوصی اور تقریب کے شرکاء کا اجتماع میں شمولیت پر شکریہ ادا کیا۔ پروفیسر میمونہ نے اختتامی دعا کرائی۔ جمیل الدین عالی کے لیے بھی دعا کی گئی۔
تحریر: ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری