پنجابی کا ایک محاورہ یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اگر آپ گدھے سے گر جائیں تو اپنی خفت اس کے مالک کمہار پر غصہ بگھارنے کے ذریعے مٹانے کی کوشش نہ کریں۔قصور اس ضمن میں شاید گدھے کا بھی نہیں ہوتا۔حقیقت بسااوقات بلکہ یہ ہوتی ہے کہ آپ گھوڑے یا گدھے پر سواری کے ہنر سے آگاہ نہیں۔
میڈیا کے ذریعے پیغام رسانی ایک بہت ہی دشوار ودقیق ہنر ہے۔محض چند لوگوں کو پیدا ہونے کے ساتھ ہی نصیب ہوجاتا ہے۔اکثریت کو اس کے اسرارورموزسمجھنے کے لئے بے تحاشہ ریاضت ومشقت کرنا ہوتی ہے۔ہمارے ہاں مگر صلاحیتوں پر انحصار کے بجائے ’’دائو‘‘ لگ جانے پر تکیہ کیا جاتا ہے۔لگ جائے تو تیرورنہ تُکا۔
2002میں ٹی وی صحافت کا فروغ شروع ہوا توکئی بے ہنر لوگوں کی ’’لاٹری‘‘ نکل آئی۔ راتوں رات سلیبرٹی بن گئے۔
Ratings
کی قوت سے حکومتوں کو گرانے اور اپنی پسند کے لوگوں کو اقتدار میں لانا شروع ہوگئے۔بندر کے ہاتھ اُسترا آگیا۔ ’’میڈیم‘‘ پیغام نہ رہا۔’’ہتھیار‘‘ بن گیا جس کا بنیادی مقصد لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا ہوگیا۔
اپنی عمر کا بیشتر حصہ پرنٹ صحافت کی نذر کرنے کے بعد محض معقول معاوضے کی خواہش میں 2007کے سال میں ٹی وی صحافت کی جانب مائل ہوا تھا۔کوشش ہمہ وقت پھر بھی یہ رہی کہ روایتی صحافت کے اصولوں کی پاسداری کرتا رہوں۔کچھ ’’نیا پن‘‘ لانے کے لئے اپنے پروگرام میں
Live Calls
لینا شروع ہوگیا۔اس کی بدولت منبر پر بیٹھ کر مبلغ کا کردار ادا کرنے کے بجائے تازہ ترین سیاسی صورت حال پر
Interactive
مباحثے کی گنجاش نکالنے کی کوشش کی۔کام تھوڑا چل پڑا۔
کچھ شہرت ملی تو ایک اور ٹی وی نیٹ ورک نے زیادہ معاوضے کا لالچ دے کر گھیرلیا۔ اسے جوائن کرنے سے قبل واضح الفاظ میں بارہا یاد دلاتا رہا کہ میں
Ratings
کی خاطر پروگرام نہیں کرتا۔
Niche
کی تلاش میں رہتا ہوں۔کوشش ہوتی ہے کہ تعداد میں چاہے کم سہی میرے ناظرین کی ایک مستقل
Constituencyہو۔وہ سنجیدگی سے یہ محسوس کریں کہ سیاسی اور سماجی معاملات کے بار ے میں ان کے ذہنوں میں موجود سوچ کو برملا بیان کردیتا ہوں۔زیادہ معاوضے کا لالچ دینے والے سیٹھ مگر بہت کائیاں ہوتے
ہیں۔انہیں آپ کو گھیرنا آتا ہے۔میں اس نیٹ ورک کا ملازم ہوگیا تو چند روز بعد اس کے ایک کرتا دھرتا اینکر کی کلپ باضابطہ دفتری ذرائع سے موصول ہوئی۔اس خواہش کے ساتھ کہ پروگرام کرتے ہوئے اس کلپ میں برتے انداز کی پیروی ہو تاکہ سکرین پررونق لگے۔
Ratings
آئے۔
میں نے وہ کلپ دیکھی تو اپنا سرپکڑلیا۔اس کلپ میں اے این پی کے مشہور رہ نما حاجی غلام احمد بلور صاحب رونما ہوئے تھے۔جس اینکر کی تقلید کا حکم ہوا تھا وہ حاجی صاحب کو مذکورہ کلپ میں یاد دلاتے رہے کہ ان کی ملکیت کے ایک سینما میں ’’گندی‘‘ فلمیں چلائی جاتی ہیں۔حاجی صاحب مشتعل ہوکر مائیک اُتارنے کے بعد اس پروگرام سے احتجاجاََ واک آئوٹ کر گئے۔
یہ کلپ دیکھنے کے بعد میں نے انتہائی سنجیدگی سے اس ٹی وی چینل کے کرتا دھرتا حضرات کو سمجھانے کی کوشش کی کہ پاکستان کے تقریباََ ہر نامور سیاستدان سے میں خوب واقف ہوں۔سیاست دانوں کے بارے میں جھوٹی سچی باتوں کا انبار ہوتا ہے۔اگر انہیں اپنے پروگراموں میں مدعو کرنے کے بعد میں نے ان سے منسوب جھوٹی یا سچی افواہوں کو انگریزی زبان والا
Rub in
کرنا شروع کردیا تو بالآخر کوئی ایک سیاست دان بھی میرے پروگرام میں شریک ہونے کو آماد ہ نہیں ہوگا۔زیادہ سے زیادہ دس پروگراموں کی بھرپور ریٹنگ لینے کے بعد میری ’’دوکان‘‘ بے رونق ہوجائے گی۔مجھ سے گفتگو کے لئے گمنام اور تیسرے درجے کے سیاست دان بھی میسر نہیں ہوں گے۔میرے ’’دانشورانہ تحفظات‘‘ کو مگر رعونت سے سن کر نظرانداز کردیا گیا۔بالآخر مجھے اس چینل سے ازخود استعفیٰ دینا پڑا۔روایتی صحافت کے اصولوں پر کاربند رہنے کی ضد میں اس کے بعد بھی مبتلا رہا۔یہ ضد مگر بارآور ثابت نہ ہوئی۔
Ratings
کے بجائے دیگر مسائل لاحق ہوگئے۔چند طاقت ور لوگوں کو ناراض کرنے کی حماقت کا مرتکب ہوگیا۔ کاشف عباسی ہمارے کامیاب ترین اینکرز میں شمار ہوتے ہیں۔موصوف کے اندازِ صحافت کے بارے میں میرے ہزاروں تحفظات ہیں۔ملکی سیاست کے ضمن میں اس کے خیالات وترجیحات سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا۔ذاتی ملاقاتوں میں لیکن وہ میرا بہت احترام کرتا ہے۔میں اس کی خوش خلقی کو دل سے سراہتا ہوں۔
منگل کی شب اس نے ایک شو کیا۔وہاں فیصل واوڈا صاحب تشریف لائے تھے۔اس پروگرام میں جو ہوا اس کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔جمعرات کی صبح جو کالم چھپا ہے اس میں لیکن آپ کو بتایا ہے کہ مذکورہ پروگرام چلنے کے بعد عمران حکومت کے کئی اہم وزراء اور مشیر وطن عزیز میں خلقِ خدا کی ذہن سازی کے حوالے سے اہم ترین گردانے صحافیوں سے رابطے کرتے پائے گئے۔انہیں بتایا گیا کہ وزیر اعظم صاحب کو فیصل واوڈا کا رویہ پسند نہیں آیا۔انہیں خدشہ ہے کہ موصوف کا ’’ڈرامائی انداز‘‘ عمران حکومت کے بارے میں ان حلقوں کی خفگی کا باعث ہوسکتا ہے جن کے ساتھ ’’ایک پیج‘‘ پر ہونے کی وجہ سے ’’ستے خیراں‘‘ والا سکون میسر ہے۔
عمران حکومت کے اہم وزراء اور مشیروں کی ’’پھرتیوں‘‘ کی اطلاع دیتے ہوئے میں نے انتہائی خلوص سے یہ اصرار بھی کیا کہ فیصل واوڈا نے کاشف عباسی کے پروگرام میں جو کچھ کہا وہ وزیر اعظم سمیت تحریک انصاف کے اکثریتی رہ نمائوں کے دل کی آواز ہے۔اس دعوے کے ثبوت میں چند دلائل بھی دئیے تھے۔ غصہ مگر کمہار پر اُتاردیا گیا ہے۔کاشف عباسی پر ساٹھ دنوں کے لئے سکرینوں پر نمودار نہ ہونے کی پابندی عائد ہوگئی ہے۔واوڈا صاحب یہ کالم لکھنے تک مگر اپنے عہدے پر آن بان شان سے موجود نظر آرہے ہیں۔انگریزی محاورے والا
Damage
میری عاجزانہ رائے میں لیکن سرزد ہوچکا ہے۔اس کی تلافی ممکن نہیں۔
سپریم کورٹ کے حکم پر ایک قانون کو حیران کن عجلت اور اتفاق رائے سے منظور کرتے ہوئے تحریک انصاف سمیت ہمارے ملک کی ہر بڑی سیاسی جماعت نے فقط طاقت کے اس توازن کا اثبات فراہم کیا ہے جو کئی دہائیوں سے ہمارے ہاں قائم ودائم ہے۔حقائق کا اپنی محدودات کے ادراک کے ساتھ یہ اثبات بنیادی طورپر نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ کے لئے پریشانی کا باعث ہوا۔اس کی صفوں میں مایوسی پھیلی ہے۔اس کے نام نہاد ’’ووٹ بینک‘‘ کو زک پہنچی ۔پارٹی میں تقسیم گہری ہورہی ہے۔شاہد خاقان عباسی پروڈکشن آرڈر کی بدولت پارلیمان آتے ہیں تو خواجہ آصف اور رانا تنویر ان سے روایتی سلام دُعا سے بھی گریز کرتے ہیں۔
باہمی تلخیوں میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔ان دنوں لندن میں مقیم شریف برادران مگر اپنی جماعت میں پھیلی بددلی سے ہرگز پریشان نہیں۔’’اچھے دنوں‘‘ کا انتظار کررہے ہیں۔جو بالآخر آگئے تو شریف برادران کی دانست میں ’’سب ٹھیک‘‘ ہوجائے گا۔
’’سب‘‘ نے مگر میری نگاہ میں اب ’’ٹھیک‘‘ ہونا ہی نہیں۔1985سے اس ملک میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد ریاست کے مختلف ستونوںمیں اقتدار واختیار کی تقسیم کا جو بندوبست متعارف ہوا تھا وہ متحرک عدلیہ اور اٹھارویں ترمیم کے باعث آئے’’جھٹکوں‘‘ سے نبردآزما ہونے کے بعد بالآخر اپنے اصل مقام پر واپس آگیا ہے۔ سیاست دانوں کو فی الوقت اسی بندوبست کے ساتھ گزارہ کرنا ہوگا۔کاشف عباسی پر لگی پابندی یا فیصل واوڈا کی مذمت مذکورہ بندوبست سے وابستہ حقائق کو چھپا نہیں پائے گی۔
نصرت جاوید صاحب کا حقائق نامہ: بشکریہ: نوائے وقت