تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
یوم یک جہتی کشمیر پوری پاکستانی قوم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے، صرف کھڑی نہیں بلکہ ہر قسم کی مدد کے لئے پاکستانی افواج اور پاکستانی قوم کشمیر کے مسئلے پر ایک ہے۔ آج کل اکثرو پیشتر سننے میں آ رہا ہے کہ کشمیری پاکستان سے الحاق نہیں چاہتے بلکہ ایک خود مختار کشمیر چاہتے ہیں،پہلی تو یہ بات ہے کہ یہ حقیقت نہیں بلکہ تحریک ِ آزادی کو ختم کرنے کی ایک ناپاک جسارت ہے،ایک منٹ کے لئے اگر فرض کر لیا جائے کہ کشمیری پاکستان سے الحاق نہیں چاہتے تو اس میں کشمیریوں کا کوئی قصور نہیں بلکہ یہ پاکستانی سیاستدانوں کی ناکام خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے ۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کن کے اشاروں پر بنتی ہے۔یہ یہود و نصریٰ جو مسلمانوں کے کھُلم کھلے دشمن ہیں ان کا کیا کرایہ ہے زیادہ دور نہیں 147 ء کی تاریخ کو دیکھتے ہیں
انگریز حکمرانوں نے پاکستان کی سرحدوں کا اعلان 14 اگست 1947ء سے کچھ دن بعد کیا اور نہائت عیاری سے گورداسپور جو کہ مسلم اکثریت والا ضلع تھا کو بھارت میں شامل کر دیا۔ جس کے نتیجہ میں ایک تو گورداسپور میں تسلّی سے اپنے گھروں میں بیٹھے مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور دوسرے بھارت کو جموں کشمیر جانے کے لئے راستہ مہیا کر ہو گیا۔
یہ تو تھا ایک اشارہ ہماری خارجہ پالیسی مرتب کرنے والوں کا اب زرا پاکستان کی سیاست تاریخ کے آئینے میں بینظیر بھٹو نے 1988 عیسوی میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت کے پردھان منتری راجیو گاندھی سے دوستی شروع کی۔ دسمبر 1988 عیسوی میں راجیو گاندھی کے پاکستان کے دورہ سے پہلے ملک عزیز کے جس جس مقام جگہ پر لکھا تھا ”کشمیر بنے گا پاکستان” وہ اور اس جیسے الفاظ لکھے تھے۔
حتیٰ کہ جہاں کئی بھی ویسے ہی جموں کشمیر کا نام لکھا تھا وہ مِٹوا دیا یہاں تک کہ راولپنڈی میں کشمیر ہاؤس کے سامنے سے وہ بورڈ بھی اتار دیا گیا جس پر کشمیر ہاؤس لکھا تھا۔ اُسی زمانہ میں خیر سگالی کرتے ہوئے کسی نے اُن راستوں کی نشان دہی بھارت کو کر دی جن سے جموں کشمیر کے لوگ سرحد کے آر پار جاتے تھے۔ مقبوضہ علاقہ کے ظُلم کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کے لئے رضاکار آزاد جموں کشمیر سے کپڑے۔ جوتے۔ کمبل وغیرہ لے کر انہی راستوں سے جاتے تھے۔ بھارتی فوج نے ان راستوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی۔
اور اس طرح جموں کشمیر کے کئی سو رضاکار مارے گئے اور بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند ہو گئی۔دشمن نے اس پر جلتی کا کام کیا ایک طرف ہم کو کشمیر سے دور رہنے کا سبق دیا دوسری طرف معصوم کشمیریوں کے دماغ میں یہ بات ٹھونس نے کی کوشش کی کہ پاکستان آپ کا خیر خواہ نہیں ۔ جس سے درجن بھر لیڈروں نے کشمیریوں کو ورغلانے کی کوششیں کر رہے ہیں جبکہ حقیقت میں کشمیری پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔
اس موقع پر یہ بات بھی یاد رکھنے ہماری افواج ہماری قم کی صحیح معنوں میں ترجمان ہے ۔۔۔ پاکستان کے پہلے نشان حیدر کیپٹن راجہ محمد سرور بھٹی شہید کو یہ اعزاز بھی جنگِ کشمیر میں ہی جرأت و بہادری کی عظیم داستان رقم کرتے ہوئے ملا تھا۔ پاکستانی قوم اور پاکستانی فوج کی آزادی کشمیر کے لئے قربانیوں کی منفرد تاریخ ہے۔ 1948ء کی جنگ میں جب ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا تب قائد اعظم محمد علی جناح زندہ تھے۔
قائد اعظم نے جہاد کی اجازت دی۔ آپ اندازہ کریں کہ وہ 73 سالہ بزرگ، ضعیف اور کمزور جس کا وزن 90پونڈ تھا تو ان کی حالت کیا ہوگی۔ بیماری کے ہاتھوں وہ اس وقت آخری سانسوں پر تھے لیکن آپ پھر بھی ان کا عزم دیکھیں۔ ان کے لئے کشمیر اتنا اہم تھا کہ انہوں نے کہا چڑھ جاؤ اس کے اوپر کیا ان کو خطرات نظر نہیں آ رہے تھے۔
پاکستان اس وقت لڑکپن اور بچپنے کی حالت میں تھا۔ خزانہ خالی تھا فوج نہیں تھی، پناہ گزینوں کا بوجھ بڑھ رہا تھا۔ دفتروں میں کرسی میز نہیں تھے۔ یہاں تک کہ کاغذ بھی نہیں تھے۔ ایسی صورت میں بھی جس شخص کو فیصلہ کرنا تھا اس نے فیصلہ کردیا کہ ہم کشمیر لیں گے اور جو کشمیر آج ہمارے پاس ہے وہ قائد اعظم کا مرہون منت ہے۔
اہل کشمیر آج 21 اکسویں صدی میں بھی آزادی سے محروم ہے ، کشمیر کا آزاد نہ ہونا بھارت کی عیاری مکروفریب اور دغا بازی کو عیاں کرتا ہی ہے مگر دنیا کے ٹھیکیداروں کو حسد بغض اور کینہ پروری سے کسی بھی صورت پاک نہیں کرتا، عالمی قوتیں جو کشمیر کی آزادی محض اس لئے نہیں چاہتے کہ کشمیر آزاد ہوگا تو پاکستان سے الحاق کر لے گا، دنیا میں امن کے پجاری ،امن کے ٹھیکیداروں کو کتوں، بلیوں،چرندوں ، پرندوں اور جانوروں کے حقوق یاد ہیں مگر انسانیت کی تزلیل، اہل کشمیر کے دررو رنج ،دکھائی نہیں دیتے کیونکہ کشمیر میں بسنے والے مسلمان ہیں۔
جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے تیسری سیاسی تحریک جو 1931 عیسوی میں شروع ہوئی تھی وہ آج تک مقبوضہ جموں کشمیر میں جاری ہے۔ دوسری مسلح جدوجہد 1989 عیسوی میں شروع ہوئی وہ پاکستان کی حکومت کی مدد کے بغیر آج تک جاری ہے۔۔ کچھ تاریخ کشمیر سے۔۔۔۔۔ کشمیرانہی بدقسمت خطوں میں سے ہے جہاں کے لوگ سالہاسال سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اپنی جانیں دے رہے ہیں لیکن ہو یہ رہا ہے کہ اُن کے آقا تو بدل رہے ہیں آزادی کی منزل ابھی نہیں آئی۔
گلاب سنگھ سے انگریز،انگریز سے ڈوگرہ،ڈوگرہ سے بھارت کی متعصب ہندو حکومت کی غلامی، جو بظاہر خود کو سیکولر قرار دیتی ہے لیکن دراصل وہ کسی غیر ہندو کوبھارت کی زمین پر رہنے کا حق بھی نہیں دیتی اور اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتاکہ حکومت کس جماعت کی ہے، کانگریس ہو بی جے پی یا کوئی اور اس کا صرف ایک منشور ہوتا ہے اور وہ ہے مسلمانوں کے خلاف کام کرنا اور بھارت کی زمین اس پر تنگ کرنا اور کشمیر کے مسلمان اس کے مظالم کا سب سے زیادہ شکار رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ آخر میں اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں غاصب ہندؤں سُن لو !آزادی کشمیریوں کا حق ہے تم کب تک نہ دو گئے آزادی؟ ہم چھین لیں گئے آزادی ! تم تو کیا تمھارا باپو بھی دے گا آزادی۔
تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا