تحریر: سید توقیر زیدی
بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر ”مشروط” آمادگی ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ کشمیر کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور دوسرے مسائل پر بھی بات ہونی چاہئے پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری نے کشمیر کے موضوع پر مذاکرات کا عمل شروع کرنے کے لئے دو روز قبل ایک باضابطہ خط اسلام آباد میں متعین بھائی ہائی کمشنر گوتم بمبانوالہ کے حوالے کیا تھا،جو بھارت کے سیکرٹری خارجہ کو پہنچایا گیا۔ بدھ کو اس خط کا جواب بھارتی ہائی کمشنر نے اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری محمد وجیہہ الحسن سے ملاقات میں اْنہیں پیش کیا، کیونکہ سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری فرائضِ منصبی کے سلسلے میں مْلک سے باہر ہیں۔ دفتر خارجہ بھارتی خط کے مندرجات کا جائزہ لے رہا ہے، جس کے بعد ہی جواب دیا جائے گا۔ بھارتی حکومت نے خط میں یہ موقف اختیار کیا ہے، چونکہ جموں کشمیر کی موجودہ صورتِ حال کے کلیدی پہلوؤں کا تعلق سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی سے ہے اِس لئے ہم نے تجویز پیش کی ہے کہ خارجہ سیکرٹریوں کی بات چیت میں اِسی پر توجہ مرکوز کی جائے، پاکستان کو دیئے گئے جوابی خط میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کی جانب سے عائد کئے جانے والے الزامات کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے اور پاکستان کا اس سے قطعاً سروکار نہیں۔ پاکستانی سیکرٹری خارجہ نے اپنے بھارتی ہم منصب کو اسلام آباد آنے کی دعوت بھی دی تھی۔
جہاں تک بھارت کے اِس موقف کا تعلق ہے کہ مقبوضہ کشمیر اس کا اٹوٹ حصہ ہے یہ راگ تو وہ ہمیشہ سے الاپتا چلا آ رہا ہے، لیکن دْنیا مانتی ہے کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے یہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر قدیم ترین مسئلہ ہے جو اب تک حل نہیں ہوا، کشمیر کو متنازعہ علاقہ کسی اور نے نہیں، خود بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں ساری دْنیا کے نمائندوں کے سامنے تسلیم کیا تھا اور نہ صرف کشمیر کو متنازعہ علاقہ مانا تھا، بلکہ یہ بھی وعدہ کیا تھا، کشمیر کے لوگوں کو استصواب رائے کا حق دیا جائے گا اور ریاست میں ریفرنڈم کرایا جائے گا، چونکہ اس وقت کشمیر میں جنگ ہو رہی تھی اور خدشہ تھا کہ مجاہدینِ آزادی جلد سرینگر پہنچ جائیں گے اِس لئے نہرو بھاگم بھاگ اقوام متحدہ میں پہنچے اور اْن کے اِس وعدے پر عالمی ادارے نے جنگ بندی کا حکم دیا۔ اب اگر موجودہ بھارتی حکومت یا اِس سے قبل کی بعض حکومتیں کشمیر کو اٹوٹ انگ کہتی ہیں تو اِس سے پہلے اْنہیں نہرو کے اس وعدے کی تفصیلات پڑھ لینی چاہئیں یا پھر اقوام متحدہ کا ریکارڈ دیکھ لینا چاہئے، جہاں یہ سب قضیہ تمام تر تفصیلات کے ساتھ موجود ہے اور اب بھی اس کی صدائے باز گشت سنائی دیتی رہتی ہے۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نے اپنے بھارتی ہم منصب کو مذاکرات کی جو دعوت دی اور مذاکرات کے لئے اسلام آباد آنے کے لئے کہا اس کا پس منظر دراصل یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں جامع مذاکرات کا سلسلہ کافی دیر سے معطل چلا آ رہا ہے، کئی بار اِس کا امکان پیدا ہوا، لیکن جب دو چار ہاتھ لبِ بام رہ گیا تو کمند ٹوٹ گئی، آخری بار یہ ہْوا کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج افغان کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلام آباد آئیں تو یہاں اْن کی ملاقات وزیراعظم نواز شریف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے بھی ہوئی اور یہیں انہوں نے جامع مذاکرات کی بحالی کا اعلان کیا، جو اب تک شروع نہیں ہو سکے،خط لکھنے کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ اگر بھارت جامع مذاکرات نہیں چاہتا تو کشمیر پر مذاکرات کر لے۔ مذاکرات کے سلسلے میں پاکستان کی نیک نیتی کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ کشمیر میں اس وقت جو صورتِ حال ہے اس پر پوری دْنیا میں کہرام مچا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس پر احتجاج کیا تو انسانی حقوق کے اس عالمی ادارے پر بھی بھارتی حکومت نے لوگوں کو بغاوت پر اْکسانے کا الزام جڑ دیا ہے اور پھر اس الزام کی بنیاد پر ایمنسٹی کے تمام دفاتر بند کر دیئے ہیں،جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہمارے سیمینار میں لوگوں نے آزادء کشمیر کے حق میں نعرے لگا دیئے، جس پر بھارت نے ایمنسٹی انٹرنیشنل پر بغاوت پر اْکسانے کا الزام لگا دیا، دراصل یہ بھارت کی بوکھلاہٹ کا ایک اور ثبوت ہے اور اِس جانب خود بھارتی حلقے بھی اپنی حکومت کی توجہ مبذول کرا رہے ہیں۔ پاکستان کے سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف نے بھی کہا ہے کہ مودی ہوش کھو بیٹھے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے بھی پاکستان اور بھارت کو مشورہ دیا ہے کہ دونوں مْلک وسیع تعاون اور دہشت گردی پر مذاکرات کریں۔ پاکستان تو مذاکرات پر نہ صرف آمادہ ہے، بلکہ مسئلہ کشمیر بھی مذاکرات کے ذریعے ہی حل کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ کشمیر کا مسئلہ دونوں ملکوں میں اصل وجہ نزاع ہے، جب تک یہ حل نہیں ہوگا کشمیر میں امن نہیں ہوسکتا، اس لیے مذاکرات کشمیرپر ہونے چاہئیں۔ اب اگر بھارتی حکومت مذاکرات کی میز پر ہی نہ آئے تو مذاکرات کا عمل کیسے شروع ہو سکتا ہے، مذاکرات کی تازہ دعوت کے جواب میں بھی بھارت نے پرانی ہٹ دھرمی کا اعادہ کر دیا ہے اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مذاکرات کا ایجنڈا تیار ہو بھی گیا تو بھی بھارت حیلے بہانے سے ان سے کنی کترا جائے گا۔ کشمیر پر اٹوٹ انگ کی پرانی رٹ کا اعادہ بھی اِس لئے کیا گیا ہے کہ سارے معاملے کو تاویلات میں اْلجھا دیا جائے۔ بھارت کشمیر کی جدوجہد آزادی کو بھی دہشت گردی سے تعبیر کر رہا ہے، حالانکہ دہشت گردانہ رویہ تو خود بھارتی حکومت نے اپنا رکھا ہے جو پْرامن جلوسوں پر فائرنگ کر رہی ہے،80 سے زیادہ افراد ایک ماہ کے عرصے میں شہید ہو چکے ہیں، ہزاروں ایسے زخمی ہیں جو زندگی بھر کے لئے اپاہج ہو چکے ہیں۔
کشمیر کی جدوجہد کشمیری نوجوان کر رہے ہیں، جنہیں ریاست کے لوگ جانتے پہچانتے ہیں۔ برہان وانی جو پولیس کی فائرنگ سے شہید ہو گئے، کوئی دہشت گرد نہیں تھے۔ اْن کا خاندان اب بھی کشمیر میں رہتا ہے ان کے والد شعبہ تعلیم سے وابستہ نامور شخصیت ہیں اِسی طرح جو بھی لوگ بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں اْن کے عزیز رشتے دار سب کشمیر میں رہتے ہیں ایسے میں بھارت کا یہ الزام بذاتِ خود مضحکہ خیز بن کر رہ جاتا ہے کہ سرحد پار سے دہشت گردی ہو رہی ہے، جو لوگ بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنے اور جو زخمی ہوئے وہ سب کشمیری لوگ تھے اِس لئے یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ سرحد پار سے دہشت گردی ہو رہی ہے۔
اگر بھارت اِس معاملے پر یعنی ”سرحد پار دہشت گردی” پر پاکستان سے بات چیت کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے کشمیری شہدا کو غیر ملکی باشندے ثابت کرنا ہو گا جو ناممکن ہے، اِس لئے بہتر یہی ہے کہ بھارت وسیع تر مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے اور ایسا ایجنڈا تیار کیا جائے، جس پر نتیجہ خیز بات چیت ہو سکے، مذاکرات برائے مذاکرات اور ان کے نام پر وقت گزاری کا رویہ بھی کسی صورت مستحسن نہیں، بات چیت تو اْسی وقت ہو گی جب خلوصِ نیت کے ساتھ یہ کام شروع کیا جائے گا۔ الزام تراشی شروع کر کے کسی نہ کسی طرح مذاکرات سے گریز مسئلے کا حل نہیں اِس سے صورتِ حال اور پیچیدہ ہو گی۔
تحریر: سید توقیر زیدی