تحریر : فرخ شہباز وڑائچ
”میں آج تک اس بزرگ کی آنکھوں کی سرخی نہیں بھول سکا، یہ پچھلے تین سال سے میرے معمول میں شامل ہو گیا کہ مصروفیت چاہے آسمان کو ہی نہ چھو رہی ہو مگر میں سال میں ایک مرتبہ جنت نظیر کشمیر ضرور جاتا ہوں ،یہ جولائی کی بات ہے ہم آزاد کشمیر میں گیسٹ ہائوس سے صبح سویرے سیر کے لیے نکل آئے راستے میں ایک کشمیری بزرگ سے ملاقات ہوئی تعارفی نشست ہوئی دوستوں کا تعارف ہوا کشمیری بزرگ کے کپڑے اس کی خستہ حالی کا پتہ دے رہے تھے،بابا جی بے تکلفی پر اتر آئے کولڈ ڈرنکس منگوا لیں یار دوست مشروب سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ایک دوست اپنی لاابالی طبیعت کو قابو میں نہ رکھ پایا گویا ہوا”بابا جی کشمیر والے پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ جانا چاہتے ہیں” محفل میں اچانک خاموشی چھا گئی کسی کو بھی اچانک ایسے سوال کی توقع نہیں تھی بزرگ کی آنکھوں کی رنگت گہری سرخی میں تبدیل ہو رہی تھی جیسے اس مختصرسوال نے اسے مار ہی ڈالا ہو۔میرے دوست کو اس کے سوال کا جواب مل چکا تھا۔
اس کشمیری بزرگ کا جواب مجھے شہر لاہور کے اس وسیع و عریض ہال میں لے آیاجہاںمسئلہ کشمیر کی اہمیت اجاگر کرنے اور کشمیریوںسے اظہار یکجہتی کیلئے پی ایف یو سی نے تصویری نمائش کا اہتمام کر رکھا تھا جس سے وزیر قانون پنجاب رانا ثنا ء اللہ خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ پوری قوم کا کشمیر کی آزادی کے ساتھ سمجھوتہ ہے اور مذکورہ نمائش کا اہتمام بھی اسی نظریے کو اجاگر کرتا ہے کہ ہمیں ہر قیمت پر کشمیریوں کی جدوجہد کو آزادی سے ہمکنار کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قومیں جنگ کے نتیجے میں برباد ہوا کرتی ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ ٹیبل ٹاک کے ذریعے مسائل حل کیے جائیں۔
کشمیر ڈے پر کم و بیش سرحد کے دونوں اطراف اسی طرح کے جذبات پھرسے بیدار ہو جاتے ہیں مگر ابھی بھی اس طرح کے لوگ موجود ہیں جو جذبات کی رو میں بہنے کی بجائے تدبر کا ثبوت دیتے ہیں۔ شونی کمار چوپڑا کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے۔ ان کا تعلق بھارت کی سیاسی جماعت بھارتی جنتا پارٹی سے ہے۔ موصو ف رکن پارلیمنٹ منتخب ہوچکے ہیں۔رکن پارلیمنٹ کے علاوہ چوپڑا نئی دہلی سے شائع ہونے والے ایک ہندی اخبار کے ایڈیٹر بھی ہیں۔چوپڑا نے گزشتہ سال نئی دہلی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔اشونی کمار کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کشمیریوں کے جذبہ حریت سے پوری طرح آگاہ ہیں اور جانتے ہیں کہ کشمیری عوام بھارتی تسلط سے آزادی چاہتے ہیں اور ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے”۔
اب وقت آگیا ہے تعصب اور جانبداری سے نکل کرکشمیر پر بات کی جائے، کیوںنا اب کی بار مسائل کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے۔اس گزرتے یوم کشمیر کے ساتھ ایسے مکالمے کا اہتمام کیا جائے جہاں یہ سوال اٹھایا جائے کہ کیوں امن پسند کشمیری اسلحہ اٹھانے پرمجبور ہو رہے ہیں؟کیونکر کشمیری نوجوان بھارتی فورسز پر حملہ آور ہوتے ہیں؟معروف تاریخ دان ول ڈیورانٹ اپنی کتاب Heros of History میں لکھتا ہے کہ انگلینڈ میں فرانس سے زیادہ غربت و افلاس تھی، بلکہ انگلینڈ کے لوگ تو پرانے چمڑوں کو ابال کر سوپ تیار کر کے زندگی گزارتے تھے، لیکن وہ سب لوگ فرانس کے عوام کی طرح سڑکوں پر نہیں نکلے۔
انہوں نے امراء کا قتل نہیں کیا۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتا ہے کہ انگلینڈ میں فرانس کے بادشاہوں کی طرح عوام کی غربت کا مذاق اڑانے والا کوئی نہ تھا۔ کسی ملکہ نے یہ الفاظ نہیں بولے تھے: ”لوگوں کو اگر روٹی نہیں ملتی تو وہ کیک کیوں نہیں کھاتے؟” یا پھر انگلینڈ میں فوج کے کسی سپہ سالار نے فرانس کے روہان کی طرح یہ فقرہ نہیں کہا تھا کہ لوگ بھوکے ہیں تو پورے فرانس میں اس قدر گھاس اُگی ہوئی ہے، وہ کیوں نہیں کھاتے؟” یہ وہی شخص ہے جسے لوگوں نے پکڑا، اس کے منہ میں گھاس بھری اور پھر گردن کاٹ دی۔
حیرت کی بات ہے کہ لوگ بھوک اور افلاس برداشت کرتے رہتے ہیں، لیکن اپنا تمسخر برداشت نہیں کرتے اور آتش فشاں کی طرح اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور قتل و غارت کی ایسی تاریخ رقم کرتے ہیں جس میں کوئی پوچھتا تک نہیں کہ کون قصور وار ہے اور کون نہیں؟ کاش بھارتی حکمران پارٹی ول ڈیورانٹ کی کھینچی گئی تصویر کو دیکھ سکے،کاش بھارت کے ارباب اختیارکشمیری مائوں کے جوان بیٹوں کے جنازے دیکھ سکیں،بھارتی آقائوں کو کشمیری بہنوں کی لٹتی عصمتیں اور دن دیہاڑے کم سن بچوں کے اغوا کے واقعات کا نوٹس لینا ہو گا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے تاریخ دان کہتا ہے کہ ”حیرت کی بات ہے کہ لوگ بھوک اور افلاس برداشت کرتے رہتے ہیں، لیکن اپنا تمسخر برداشت نہیں کرتے”۔
تحریر : فرخ شہباز وڑائچ