تحریر : مہر بشارت صدیقی
بین الاقوامی این جی او انٹرنیشنل ایجوکیشنل ڈیویلپمنٹ کے زیر اہتمام کشمیر پیس کانفرنس میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت اور پاک بھارت امن مذاکرات میں تیزی لانے کے مطالبے پر مبنی قرار داد اتفاق رائے سے منظور کرلی گئی۔ کانفرنس میں شریک عالمی شہرت یافتہ وکلاء ‘ ادیبوں ‘ حقوق انسانی کے اداروں سے وابستہ سرگرم کارکنوں اور ممتاز شخصیات نے کشمیریوں کی گزشتہ 6 عشروں سے جاری حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کی ۔ کانفرنس کا انعقاد نیو یارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے واقع چرچ سینٹر میں ہوا۔ کانفرنس کا موضوع ”الزام تراشی سے بالاتر ہو کر کشمیر میں امن و انصاف کیلئے مشترکہ بنیادوں کی تلاش”تھا۔ کانفرنس کے شرکاء میں سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزی کلارک ‘ برطانوی مصنفہ وکٹوریہ شوفیلڈ ‘ معروف وکیل اور مصنف سچترا وجین ‘ خرم پرویز ‘ نسرین شیخ ‘ زاہد بخاری شامل تھے۔
معروف کشمیری رہنما غلام نبی فائی نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ فریقین کی طرف سے اپنے موقف میں لچک اور سیاسی عزم کا مظاہرہ کرنے کی صورت میں مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے۔ کانفرنس میں متفقہ طور پر منظور کی جانے والی 9نکاتی قرار داد میں مقبوضہ کشمیر میں آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ (افسپا) اور پبلک سیفٹی ایکٹ ( پی ایس اے) جیسے ماورائے عدالت قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ شہری آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ قرار داد میں مقبوضہ کشمیر میں تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی ‘ حراستی مراکز بند کرنے ‘ انٹرا کشمیر ڈائیلاگ میں سہولت کاری کے لئے اعتماد سازی کے اقدامات اور سیز فائر لائن کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کے مطالبے بھی شامل ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں مقیم تمام اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور 1947ء کے بعد سے مقبوضہ کشمیر سے نکالے جانے والے کشمریوں کی واپسی خاص طور سے کشمیری پنڈتوں کی واپسی کا مطالبہ بھی کیا گیا ۔ عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے تمام فریقوں کے درمیان بات چیت میں تعاون فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ علاقے میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بھی اجاگر کرے۔ رمزی کلارک نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کئے بغیر خطے اور پوری دنیا میں امن کا قیام مشکل ہے۔ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان نیو کلیئر فلیش پوائنٹ بن سکتا ہے۔ اس مسئلہ کے حل ہونے سے پاکستان اور بھارت اربوں ڈالر کی بچت کرکے انہیں اپنے ہاں غربت کے خاتمے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں ۔ کشمیر بدستور ایک متنازعہ علاقہ ہے۔
بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کا معاملہ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں اٹھایا جائے اور کشمیری گروپوں کو اس معاملہ پر یکساں موقف اپنانا چاہئے کیونکہ بھارت ان کی تقسیم کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے خرم پرویز نے کہا کہ مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ریکارڈ پر لایا جائے۔ حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے درجنوں کیسز کے باوجود اس حوالہ سے کسی ایک ذمہ دار کو بھی اب تک سزا نہیں دی گئی بلکہ مقبوضہ کشمیر علاقے میں تعینات بھارتی فوجیوں کو ایک حریت پسند کو شہید کرنے پر 5لاکھ روپے اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں جو کشمیریوں کو قتل کرنے کے لئے لائسنس کے مترادف ہے۔ کشمیریوں کو قتل کرنے والے بھارتی فوجیوں کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی۔ ارکان قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث اب تک 5 لاکھ افراد شہید ہو چکے ہیں’ دنیا کے بڑے ممالک اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا چاہیے۔
امریکہ’ برطانیہ اور یورپی یونین کو مسئلے کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے’ اگر جنگ چھڑ گئی تو پھر یہ برصغیر تک محدود نہیں رہے گی، عالمی جنگ کی شکل اختیار کر جائے گی۔ قومی اسمبلی میں قاعدہ 259 کے تحت بحث کا آغاز کرتے ہوئے اراکین اسمبلی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کشمیریوں کی رائے کے مطابق حل ہونا چاہئیے اور انہیں حق خودارادیت ملنا چاہئیے۔ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کا حل وقت کا تقاضا ہے، کشمیری پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، اٹوٹ انگ کے حوالے سے بھارت کا واویلا درست نہیں ہے۔
جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کی تھی کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہوگا۔ دنیا کے انسانی حقوق کے اداروں کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر کیوں نہیں آتیں۔ کشمیر میں پانچ لاکھ لوگ اب تک شہید ہو چکے ہیں۔ امریکہ’ برطانیہ اور یورپی یونین کو مسئلہ کشمیر حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔مسئلہ کشمیر اب بھارت کا بھی بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ بھارت میں علیحدگی پسند تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں، کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور انشاء اللہ رہے گا۔ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا خطہ میں امن نہیں آئے گا۔ کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا نازک ترین مسئلہ ہے جس کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات اور تجارت کشمیر کے مسئلہ کے بغیر نہیں ہو سکتی’ دونوں ایٹمی ممالک کو افہام و تفہیم اور مذاکرات سے جلد یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے’ موجودہ دور میں کسی بھی قوم کو غلام نہیں رکھا جاسکتا’ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں اگر رائے شماری ہو سکتی ہے تو کشمیر میں کیوں نہیں’ وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں اٹھاتے ہوئے عالمی برادری پر واضح کیا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پر عالمی ادارے کی قراردادوں پر عملدرآمد کرائے۔ ہمارے دل کشمیری عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ بابائے قوم نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کشمیر کے بغیر پاکستان مکمل نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے اس وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تین جنگیں ہوئیں۔
پاکستان کے اندرونی حالات کیسے بھی ہوں، اس کے باوجود وزیراعظم نواز شریف نے جنرل اسمبلی میں بھرپور طور پر کشمیر کا مسئلہ اٹھایا۔ بھارت میں کالے قوانین کی موجودگی اور لاکھوں لوگوں کی شہادت کے باوجود تحریک آزادی کو دبایا نہیں جاسکا۔ جمہوریت کے نام پر انتخابات کرانے کی کئی بار کوشش کی گئی تاہم لوگ اس میں حصہ نہیں لیتے۔ جنوبی ایشیا میں یہ چنگاری کسی بھی وقت شعلہ بن سکتی ہے۔
رت نے ہمیشہ مذاکرات سے انکار کیا، پاکستان کا واضح موقف ہے کہ اس وقت تک تجارت اور مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں جب تک مسئلہ کشمیر پر بات نہیں ہوگی۔ کشمیریوں کو بھی مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے۔ آنے والی نسلوں کے جذبات کو سمجھا جائے، موجودہ دنیا میں کسی کو غلام نہیں رکھا جاسکتا۔
تحریر : مہر بشارت صدیقی