تحریر : محمد اشفاق راجا
وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ تشدد سے پاک ماحول میں پاکستان کے ساتھ ہر معاملے پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ ترجمان بھارتی وزارت خارجہ وکاس سروپ نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں امن و امان درہم برہم کرنے کی پاکستانی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائیگا بلکہ ان کوششوں کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائیگی۔ بھارت پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کیلئے تیار ہے لیکن پاکستان کی جانب سے اعتماد کی بحالی کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس کی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ روکنا پڑا ہے۔
دریں اثناء پاکستان نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ایجنڈا پر لائے بغیر بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات نہیں ہو سکتے، بھارت کے ساتھ جب بھی مذاکرات ہوئے کشمیر بنیادی مسئلہ ہو گا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں بھی مسئلہ کشمیر بھرپور انداز میں اٹھائیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے حوالہ سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل اور او آئی سی کے سیکرٹری جنرل سمیت کئی عالمی اداروں کو خطوط بھیج دیئے ہیں۔
حزب المجاہدین کے نوجوان لیڈر برہان مظفر وانی کی تین ساتھیوں سمیت بھارتی فوج کی بہیمانہ کارروائی کے دوران شہادت کے بعد کشمیریوں کی تحریک میں نئی جان پڑ گئی ہے۔ بھارتی فورسز کی اس بربریت کے بعد کشمیریوں کے مقبوضہ وادی کے اندر اور باہر احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں وانی اور انکے ساتھیوں کی شہادت کے بعد بھی بھارتی فوج کے ظلم و جبر میں کوئی فرق نہیں آیا۔ گزشتہ روز پانچ نوجوانوں کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ اب تک وانی کی شہادت کیخلاف مظاہروں پر فورسز کی فائرنگ’ تشدد اور گولہ باری سے 70 کے قریب کشمیری جام شہادت نوش کرچکے ہیں اور زخموں سے چور اور معذور ہونیوالوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جبکہ وادی میں بدستور کرفیو نافذ ہے۔
بھارت مذاکرات کیلئے تشدد سے پاک جس فضا کا مطالبہ کررہا ہے’ پٹھانکوٹ حملے سے قبل اسکی نظر میں ایسی فضا موجود تھی’ اسلام آباد میں دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کی سطح کے مذاکرات طے تھے کہ پٹھانکوٹ حملے کا وقوعہ ہوگیا جس پر بھارتی میڈیا’ وزیر دفاع اور آرمی چیف نے فوری طور پر پٹھانکوٹ حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرکے اس کیخلاف زہر اگلنا شروع کردیااور اس حملے کو جواز بنا کر پہلے مذاکرات مو¿خر اور پھر منسوخ کردیئے۔ اسکے بعد ماحول کو سازگار بنانے کی رٹ شروع کردی۔ آج مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سفاک فوج کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ کر رہی ہے’ اس پر توپاکستان کو تشدد سے پاک ماحول استوار کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے مگر شاطر بھارت ماحول میں کشیدگی کا ذمہ دار بھی پاکستان کو قرار دیتا ہے۔
یہ بنیئے کی فطرت ہے کہ عالمی برادری کے دبا? پر وہ مذاکرات کی بات شروع کردیتا ہے’ جیسا کہ اب بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سروپ نے کیا ہے’ انہوں نے کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کرنے پر مشروط آمادگی ظاہر کی ہے۔طرفہ تماشا ہے کہ انہوں نے ماحول کو تشدد سے پاک کرنے اور اعتماد کی بحالی کی شرط رکھی گئی۔ بھارت کی میں نہ مانوں کی فطرت کے باعث یہ شرط کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ اسکی نظر میں مقبوضہ وادی میں حریت تحریک دہشت گردی ہے اور اس دہشت گردی میں بھارت پاکستان کو ملوث قرار دیتا ہے۔ پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں نہ صرف انکے ساتھ ہے بلکہ مسئلہ کشمیر کا ایک فریق بھی ہے اور وہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب کا حق دلانے کیلئے سرگرم ہے۔ پاکستان کا یہ کردار بھارت کیلئے ناقابل برداشت ہے بھارت کی خواہش کے مطابق پاکستان اعتماد سازی کے کیا اقدامات کرسکتا ہے؟۔
بھارت نے اب مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل پر مذاکرات کرنے کی بات کی ہے’ بھارت کی نیت صاف ہو تو اسکی طرف سے اعتماد سازی کے اقدامات بروئے کار لائے جا سکتے ہیں۔ وہ فوری طور پر کرفیو اٹھالے’ حریت رہنما?ں کو رہا کر دے’ ٹاڈا’ پوٹا اور افسپا جیسے ظالمانہ قوانین اور کشمیر سے اپنی فوج کی واپسی کا اعلان کردے مگر ایسا ممکن نہیں ہے۔ وہ مسئلہ کشمیر کو حل ہی نہیں کرنا چاہتا۔ کشمیر پر مذاکرات پر آمادگی کا مشروط اعلان بھی منافقت ہے۔ کشمیر کو بھارتی سابق اور موجودہ حکمران اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہیں۔
ابھی گزشتہ ہفتے بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج نے وزیراعظم میاں نوازشریف کی جانب سے مظفروانی کو شہید کہنے پر جو زہر اگلا’ وہ بھارت کی کشمیر پر اصل پالیسی کا اظہار ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے یہ بڑ ماری تھی کہ ”پاکستان کے عزائم کو ناکام بنادیا جائیگا’ پورا کشمیر ہمارا ہے’ پاکستان قیامت تک کشمیر حاصل نہیں کر سکتا” ایسے بیانات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کیلئے اخلاص سے کام لے رہا ہے یا عالمی دباو کم کرنے کیلئے دنیا کی آنکھوں میں منافقت کی دھول جھونک رہا ہے۔ پاکستان کا مسئلہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے سامنے آنیوالا موآقف درست ہے۔ دونوں ممالک کے مابین سب سے بڑا اور بنیادی تنازعہ کشمیر کا ہے’ باقی مسائل اور تنازعات ضمنی ہیں جو مسئلہ کشمیر کے حل ہونے کے ساتھ خودبخود طے ہو جائینگے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے بھارت پربجا طور پر واضح کیا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ایجنڈے پر لائے بغیر بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ بھارت خود مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتا ہے۔ وہ تو مذاکرات کیلئے سجی میز بھی الٹانے کی شہرت رکھتا ہے۔ اب مذاکرات کیلئے بھارت کی طرف دیکھنے کے بجائے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم عالمی برادری کے سامنے رکھے جائیں’ مسئلہ کشمیر پوری قوت اور تیاری سے اقوام متحدہ میں اٹھایا جائے اور بھارت کے مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرنے کے حیلے بہانوں سے دنیا کو آگاہ کیا جائے۔ حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی تازہ بربریت کے تناظر میں پاکستان کے سفیروں کی کانفرنس بلائی ہے۔ پاکستان میں تعینات غیرملکی سفیروں کو بریفنگ دی گئی ہے۔سرتاج عزیز نے کئی ممالک اور عالمی اداروں کو خطوط لکھے اور او آئی سی کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا نوٹس لینے کو کہا ہے۔ 20 جولائی کو سرکاری سطح پر یوم سیاہ منایا گیا اور 2اگست کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا ہے۔
ایسے اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔اس اجلاس میں یقیناً مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ پر اپنی قراردادوں پر عمل کیلئے زور دیا جائیگا۔ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں مظالم اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کیخلاف قرارداد مذمت لائی جائیگی۔ کیا ہی بہتر ہو کہ اس اجلاس میں مسئلہ کشمیر کے حل تک بھارت کے ساتھ تعلقات’ دوستی اور تجارت کے خاتمے کا اعلان بھی کردیا جائے۔ اسکے بعد بھی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے رویے میں لچک نہیں آتی تو سفارتی تعلقات منقطع کرنے سے بھی گریز نہ کیا جائے۔
تحریر : محمد اشفاق راجا