تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
5 فروری کو پوری دنیا میں کشمیریوں کے ساتھ یومِ یکجہتی منایا گیا۔ پاکستان میں ہرسال یہ دن انتہائی جوش وجذبے سے منایاجاتا ہے ۔اِس باربھی پاکستان میں کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی گئی ،مظاہرے ہوئے ، ریلیاں نکالی گئیں اور تحریکِ آزادی کے حق میں قراردادیں منظور ہوئیں ۔وزیرِاعظم میاں نواز شریف صاحب نے مظفرآباد میں آزاد کشمیر اسمبلی کے مشترکہ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلۂ کشمیر کے حل کے بغیر پاکستان اور بھارت خوشحال نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے یہ بھی فرمایا ”اقوامِ متحدہ کی کچھ قراردادوں پرسیاہی خشک ہونے سے پہلے عمل درآمد ہوجاتا ہے لیکن عالمی ادارہ بتائے کہ وہ مسلۂ کشمیرپر اپنی منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمداور تنازع حل کروانے میں کیوںناکام ہوا ۔یہ اقوامِ متحدہ کی ساکھ کاتقاضہ ہے”۔کشمیری حُریت رہنماء سیّدعلی گیلانی نے5 فروری کے حوالے سے پیغام دیا ”مقبوضہ وادی میں پاکستانی پر چم لہرانے کی تحریک کشمیریوں کی پاکستان سے یکجہتی کا ثبوت ہے ۔مسلۂ کشمیر کے حل کے بغیرخطّے میں امن واستحکام ممکن نہیں۔ کشمیریوں کی جدوجہد فیصلہ کن موڑپر ہے اِس لیے پاکستان کوچاہیے کہ بین الاقوامی محاذ گرم کرے اوردنیا پر مسلۂ کشمیر کے حل کے لیے دباؤ ڈالے ”۔ حُریت رہنماء میر واعظ عمرفاروق نے کہا ”یومِ یکجہتی سے دنیاکو یہ پیغام ملتاہے کہ پاکستان مسلۂ کشمیرکا ایک فریق ہے ۔ دنیاکو یہ پیغام بھی جاتاہے کہ جموںوکشمیر کے عوام تحریکِ آزادی کشمیر میں تنہانہیں”۔
5 فروری کوبطور ”یومِ یکجہتی ٔ کشمیر” منانے کی بنیاد امیرِجماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم ومغفور نے رکھی جنہوں نے 5 جنوری 1989ء کو لاہور میں پریس کانفرنس منعقد کی جس میں پوری دنیا میں مسلۂ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے 5 فروری کو ہڑتال کی اپیل کرکے یومِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا ۔اس وقت پنجاب کے وزیرِاعلیٰ میاں نواز شریف تھے اور مرکز میں محترمہ بینظیر بھٹو وزیرِاعظم ۔مرکز اور پنجاب میں محاذ آرائی کایہ عالم تھاکہ میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو ایک دوسرے کا سامنا کرنے سے بھی گریزاں تھے لیکن قاضی صاحب مرحوم کی اپیل پردونوں نے ہی لبّبیک کہااور یوں یومِ یکجہتی کشمیر کا آغاز ہوا۔تب سے اب تک پاکستان ،مقبوضہ کشمیر ،آزاد کشمیراور دنیابھر میںجہاں جہاںبھی کشمیری بستے ہیں ،یہ دِن اِس عزم کے ساتھ منایا جاتاہے کہ حصولِ آزادی تک یہ دِن منایا جاتارہے گا ۔پاکستان میںحکومت آمریت کی ہویا جمہوریت کی ،سبھی متفق کہ کشمیریوں کی حمایت جاری رہے گی۔
وزیرِاعظم میاں نواز شریف صاحب نے ہربین الاقوامی فورم پر کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کہاکہ جنوبی ایشیاء میں اس وقت تک امن کا خواب ادھوراہی رہے گاجب تک مسلۂ کشمیرکو کشمیری عوام کی اُمنگوںکے عین مطابق حل نہیںکیا جاتا ۔سپہ سالارجنرل راحیل شریف نے تودوٹوک الفاظ میں کہا کہ مسلۂ کشمیر تقسیمِ ہندکا نامکمل ایجنڈا ہے ،پاکستان وکشمیرلازم وملزوم ہیں ۔خطے میں امن واستحکام کے لیے کشمیر میں امن ضروری ہے۔
سپہ سالار کے یہ الفاظ کہ ”پاکستان اورکشمیرلازم وملزوم ہیں ” ہمیں 1946 ء میںلے گئے جب حضرت قائدِاعظم نے مسلم کانفرنس کی دعوت پرسری نگرکے دورے کے دوران یہ تاریخی الفاظ کہے کہ ”کشمیر پاکستان کی شہ رَگ ہے”۔ یہ ہمارے عظیم قائد کی بصیرت تھی جو اُنہوںنے بہت پہلے بھانپ لیاکہ کشمیر کے بغیر پاکستان ادھوراہے ۔ قیامِ پاکستان سے صرف 25 دن پہلے 19 جولائی 1947ء کوسری نگرمیں سردارابراہیم کے گھر میں ”قراردادِ الحاقِ پاکستان” منظور ہوئی لیکن جب کشمیریوں کے اِس فیصلے کوپرکاہ برابر بھی حیثیت نہ دی گئی تو 23 اگست 1947ء کو نیلابٹ کے مقام سے آزادی کی مسّلح جدوجہد کاآغاز ہواجس میںکشمیری نوجوانوںاور فاٹاکے پختونوں نے بھرپورحصّہ لیا اور پندرہ ماہ کی مسلسل جدوجہدکے بعدجب مجاہدین سری نگر کے دروازے پردستک دے رہے تھے تواُس وقت کے وزیرِاعظم پنڈت جواہرلال نہروگھبرا کراقوامِ متحدہ پہنچ گئے جہاں اقوامِ متحدہ نے 5 جنوری 1949ء کومتفقہ طورپریہ قرارداد منظورکی کہ کشمیریوںکو آزادانہ طریقے سے بذریعہ ووٹ پاکستان یابھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کاحق حاصل ہوگا۔
اِس قرارداد کوجواہر لال نہرونے قبول کیالیکن ہندوپنڈت کی منافقت یوں سامنے آئی کہ اقوامِ عالم کے سامنے کشمیریوں کا حقِ خودارادیت تسلیم کرنے کے باوجود کشمیر میں فوج اتاردی اور 65 سال گزرنے کے بعد بھی کشمیریوں کو یہ حق نہیں دیا جارہا جو یقیناََ عالمی ضمیرپر تازیانے کے مترادف ہے ۔اب سوال اُٹھتا ہے کہ اُس اقوامِ متحدہ کاکیا فائدہ کہ جواپنی ہی قراردادوں پر عمل کروانے کی سکت بھی نہیں رکھتی ۔یہ بجاکہ اقوامِ متحدہ امریکہ کے گھرکی باندی اوردَر کی لونڈی ہے اورامریکہ وبھارت کی آجکل گاڑھی چھنتی ہے لیکن کیاپوری دنیا صرف انہی دوممالک پر مشتمل ہے؟۔ کیایہ سمجھ لیاجائے کہ باقی اقوامِ عالم آزادوخود مختار نہیںبلکہ اِن کی غلامِ بے دام ہیں؟ ۔اگر اقوامِ عالم آزادوخود مختارہیں توپھر اِن کا ضمیر کہاں جا سویاہے؟۔
انہیں لاکھوں کشمیریوں کے اس خون کی لالی نظر کیوں نہیں آتی جولگ بھگ چھ عشروں سے بہایاجا رہاہے ۔ ہزاروں عفت مآب بیٹیوں اور بہنوں کی عصمت دَری اور بھارتی فوج کے وحشی درندوں کی درندگی سے ان کے ضمیر میں خلش کیوں محسوس نہیں ہوتی؟۔ تحریکِ کشمیر شعبہ خواتین کی مقبوضہ کشمیر کی سربراہ محترمہ زمرد حبیب نے اپنی کتاب قیدی نمبر 100 میں لکھا ”کشمیریوں کی قاتل بھارتی فوج تحریکِ آزادیٔ کشمیر کو کچلنے کے لیے کشمیری خواتین کو براہِ راست جسمانی ،نفسیاتی اورذہنی تشددکا نشانہ بنارہی ہے” زمرد حبیب نے عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کے لیے بھارتی مظالم کے ناقابلِ تردید ثبوت پیش کر کے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کر دیا۔
لیکن عالمی ضمیر پھر بھی خوابِ خرگوش میں ۔ہٹلرکے یہودیوں کے ساتھ مظالم (ہولوکاسٹ) پربات کرنااور قلم اٹھاناقابلِ گردن زنی لیکن لاکھوں کشمیریوں کے خونِ لاحق پرعالمی ضمیر ”ٹُک ٹُک دیدم ودَم نہ کشیدم”۔ دہشت گردی پر امریکہ ”لنگوٹ کَس کے” میدان میں اورحواری دائیں بائیں۔ سوال یہ کہ کیا بھارت کشمیر میں دہشت گردی نہیں کر رہا؟۔ کیا حق کی وہ آوازجسے اقوامِ عالم نے بھی تسلیم کیا ، اس کو بزورِ بازو دبانادہشت گردی نہیں؟۔ ہم یہ سمجھنے پرمجبور ہیں کہ اقوامِ عالم بھی زور آوروں کاہی ساتھ دیتی ہیں اوراُن کے ہاںبھی ”ہے جُرمِ ضعیفی کی سزامرگِ مفاجات”۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر