تحریر: ثمینہ راجہ۔ جموں و کشمیر
ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ کا سب سے زیادہ خوبصورت اور سنہرا دن 18 فروری 1938 کا ہے کہ اس دن وادئ کشمیر کے ضلع کپواڑہ کی تحصیل ہندواڑہ کے ایک گاؤں تریہگام میں ایک کسان غلام قادر بٹ کے گھر دہرتی کے اس عظیم بیٹے نے جنم لیا جس نے نہ صرف یہ کہ اپنی زندگی اور متاعِ جہان کو مادرِ وطن کی آزادی کے مشن کے لیئے وقف کیئے رکھا بلکہ اسی آزادی کے حصول کی خاطر اپنی متاعِ جان بھی وطن پر نچھاور کر کے نہ صرف خود ابد آباد تک امر ہو گیا بلکہ دہرتی ماں پر چھائی ظلمتوں کے بیچ جانثارانِ وطن کے لیئے ایک ایسی تاباں و جاوداں مشعلِ راہ چھوڑ گیا جس کی روشنی ہمیشہ وطن کی آزادی، خودمختاری، یکجہتی اور خوشحالی کی منزل کی نشاندہی کرتی رہے گی
وادئ گل کے مکینو ! میری آواز سنو
ظلم کی آگ پہ چھا جاؤ سمندر کی طرح
اور جھلسے ہوئے ویران وطن پہ ہر سُو
برف کی طرح گرو، آگ بُجھا دو یارو۔
بابائے قوم کے چھوٹے بھائی کا نام غلام نبی بٹ تھا ۔ جب بابائے قوم کی عمر گیارہ سال ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئیں ۔ آپکے باپ نے دوسری شادی کر لی ۔ یوں آپ کے دو مزید بھائی منظور احمد بٹ اور ظہور احمد بٹ اور تین بہنیں پیدا ہوئیں ۔ قائدِ حریت حضرت مقبول بٹ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے سکول سے ہی حاصل کی ۔ آپکے دورِطالبعلمی کا ایک واقعہ بہت اہم ہے اور اس کا ذکر کیئے بغیر آپکی شخصیت کا حقیقی عکس منعکس نہیں ہو سکتا۔
بابائے قوم جن دنوں سکول میں پڑہتے تھے اس زمانے میں ایک عام روایت یہ تھی کہ تقریبات میں امیر اور اہلِ ثروت لوگ ایک طرف بیٹھتے تھے جبکہ غریب اور نادار لوگ ان سے بالکل الگ تھلگ دوسری طرف ۔ یہ عام رواج تھا اور تمام سرکاری اور نجی تقریبات میں اس ترتیب کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا ۔ ایک سال شہیدِ وفا حضرت مقبول بٹ شہید بھی ان طلباء میں شامل تھے جنہیں اعلی کارکردگی کی بنیاد پر اپنا انعام وصول کرنا تھا۔ رواج کے مطابق سکول کی سالانہ تقریبِ انعامات کے لیئے نشستیں اس طرح لگائی گئیں کہ امیر طلباء اور انکے والدین کے لیئے تقریب میں نشستیں ایک طرف مختص کی گئیں جبکہ غریب اور نادار طلباء اور انکے والدین کے لیئے تقریب میں نشستیں دوسری طرف لگائی گئیں ۔ مقبول بٹ بھی ان طلباء میں شامل تھے جنہیں سکول کی جانب سے انعام دیا جانا تھا۔
دستور کے مطابق مقبول بٹ کی نشست بھی غریب اور نادار لوگوں کی طرف لگائی گئی ۔ مگر مقبول بٹ نے وہاں بیٹھنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اپنا انعام اس وقت تک وصول نہیں کریں گے جب تک تمام طلباء ایک ساتھ ایک طرف اور تمام والدین ایک ساتھ دوسری طرف نہیں بٹھائے جاتے ۔ مقبول بٹ کی یہ تجویز قبول کی گئی اور تقریبِ تقسیمِ انعامات میں تمام والدین کو سماجی مقام اور مرتبے سے قطع نظر ایک طرف بٹھایا گیا اور تمام طلباء کو ایک ساتھ دوسری طرف بٹھایا گیا ۔ اُس سال کے بعد گاؤں کے سکول میں ہمیشہ تقریبات میں قائدِکشمر کے تجویز کردہ انتظام کو ہی اپنایا گیا ۔ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قائدِ انقلاب بچپن ہی سے سماجی اونچ نیچ اور امتیازی سلوک کے خلاف تھے اور اپنی بات اور اپنے موقف پر چٹان کی طرح ڈٹ جاتے تھے۔
سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بابائے قوم نے سینٹ جوزف کالج بارہ مُولا میں داخلہ لیا۔ خواجہ رفیق اپنی کتاب سفیرِحریت میں لکھتے ہیں کہ سینٹ جوزف کالج کے پرنسپل عیسائی پادری شنکس نے شہیدِکشمیر حضرت مقبول بٹ شہید کی سیاسی سرگرمیوں کو دیکھ کر ایک دفعہ کہا تھا کہ “یہ نوجوان اگر زندگی کی مشکلات سے عہدہ برا ہونے میں کامیاب ہو گیا تو ایک دن بہت بڑا آدمی بنے گا ۔ لیکن اس قسم کے لوگ اکثر سماج میں شدید ترین مشکلات کا سامنا کرتے ہیں ۔ جس قسم کی آزادی یہ نوجوان چاہتے ہیں اُسکا حصول بہت مشکل ہے ۔ نتیجتاً یہ آزادی کی راہ میں قربان ہو جاتے ہیں”۔ اور قائدِ کشمیر کے ضمن میں فادر شنکس کی یہ بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔
بابائےقوم حضرت مقبول بٹ شہید نے گریجویشن تک تعلیم بھارتی مقبوضہ وادئ کشمیر سے ہی حاصل کی۔
بی اے کرنے کے بعد 1958 میں بابائے قوم ہجرت کر کے اپنے چچا کے ساتھ پاکستان آ گئے اور پشاور میں سکونت اختیار کی جہاں سے اردو ادب میں ماسٹرز کے علاوہ آپ نے ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا ۔ 1961 میں آپ نے پشاور سے کشمیری مہاجرین کی نشست پر الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی ۔ 1961 میں ہی آپ نے اپنی ایک عزیزہ راجہ بیگم کے ساتھ شادی کی – جن کے بطن سے 1962 میں جاوید مقبول بٹ پیدا ہوئے ۔ 1963 میں آپ نے ذاکرہ بیگم کے ساتھ دوسری شادی کی ۔ 1964 میں پہلی اہلیہ کے بطن سے شوکت مقبول بٹ نے جنم لیا ۔ (آپ کے اس فرزند نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے عظیم باپ کے مشن کو جاری رکھا ہوا ہے ۔ شوکت مقبول بٹ پرامن اور جمہوری جِدوجُہد کے ذریعے اپنے باپ کے خواب کی تکمیل کے لیئے سرگرمِ عمل ہیں )۔
اپریل 1965 میں آپ نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر قوم پرست سیاسی جماعت محاذ رائے شماری کی بنیاد رکھی ۔ 12 جولائی 1965 کو محاذ رائے شماری کا مسلح ونگ بنانے کے لیئے قرارداد پیش کی گئی مگر یہ قرارداد محاذ کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اکثریت رائے سے مسترد کر دی گئی ۔ اس قرارداد کی ناکامی کے بعد 13 اگست 1965 کو آپ نے چند ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر محاذ رائے شماری کے خفیہ مسلح ونگ این ایل ایف کی بنیاد رکھی – 1966 میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے دوسری بیگم کے بطن سے بیٹی لبنیٰ سے نوازا جو آپ کی تیسری اور آخری اولاد ہیں۔
آپ این ایل ایف کو تشکیل دینے اور اس کا دائرہ کار بڑہانے کے لیئے 10 جون 1966 کے دن کچھ ساتھیوں کے ہمراہ جنگ بندی لائن عبور کر کے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں چلے گئے جہاں آپ نے این ایل ایف کے لیئے تنظیم سازی اور تربیت کے کام کا آغاز کیا ۔ مگر بھارتی سیکورٹی فورسز کو قائدِکشمر کی سرگرمیوں کا علم ہو گیا اور انہوں نے آپ کے خفیہ ٹھکانے کو تلاش کر لیا ۔ 14 ستمبر 1966 کو سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس میں آپ کا ساتھی اورنگزیب شہید ہو گیا جبکہ کرائم برانچ سی آئی ڈی کا انسپکٹر امر چند بھی اس جھڑپ میں مارا گیا ۔ بابائے قوم کو دو ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا اور آپ کو سری نگر سنٹرل جیل میں قید کر کے آپ پر بغاوت اور امر چند کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا ۔ یہ مقدمہ انڈین پینل کوڈ کے دشمنی ایکٹ 1943 کے تحت قائم کیا گیا ۔ اگست 1968 میں کشمیر ہائیکورٹ نے آپ کو اس مقدمے میں سزائے موت سنائی ۔ آپ نے عدالت کے فیصلے کے بعد جج کو مخاطب کر کے کہا ” جج صاحب ! وہ رسی ابھی تیار نہیں ہوئی جو مقبول بٹ کے لیئے پھانسی کا پھندہ بن سکے”-
9 دسمبر 1968 کو آپ جیل کی دیواروں میں شگاف ڈال کر جیل سے فرار ہوئے اور برف پوش پہاڑوں کو عبور کر کے 23 دسمبر 1968 کو چھمب کے مقام سے آزادکشمیر میں داخل ہوئے ۔ مگر 25 دسمبر 1968 کو آپ کو گرفتار کر کے مظفرآباد کے بلیک فورٹ میں قید کر دیا گیا جہاں آپ پر بے پناہ تشدد کیا گیا ۔ تاہم محاذ رائے شماری، این ایل ایف اور این ایس ایف کے زبردست مظاہروں کے بعد آپ کو 8 مارچ 1969 کو رہا کر دیا گیا ۔ رہائی کے بعد آپ نے سیاسی سرگرمیوں پر تمام تر توجہ مرکوز کی اور نومبر 1969 میں آپ کو محاذ رائے شماری کا مرکزی صدر بنا دیا گیا ۔ مگر قائدِ انقلاب حضرت مقبول بٹ نے اپنی خفیہ عسکری سرگرمیوں کو ترک نہ کیا اور این ایل ایف کے لیئے رکنیت سازی اور تنظیم سازی کا کام جاری رکھا ۔ آپ الجیریا، فلسطین اور ویتنام کی تحاریکِ آزادی سے بہت متاثر تھے ۔ آپ نے این ایل ایف کے ممبران کی تربیت انہی تحاریک کے طرز پر شروع کی۔
30 جنوری 1971 کو آپ سے تربیت حاصل کر کے دو نوجوانوں ہاشم قریشی اور اشرف قریشی نے بھارت کا طیارہ اغواء کیا اور اسے لاہور لے آئے ۔ ہائی جیکروں نے بھارتی جیلوں میں قید این ایل ایف کے دو درجن کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کیا مگر بھارت نے اس مطالبے کو تسلیم نہ کیا چنانچہ مسافروں کو رہا کرنے کے بعد یکم فروری 1971 کو طیارے کو نذرِ آتش کر دیا گیا ۔ پاکستانی قوم نے آپ اور آپ کے ساتھیوں کے اس اقدام کو بہت سراہا اور کھل کر آپکی حمایت کی ۔ آپ کے اس اقدام نے مسئلہ کشمیر کو نہ صرف نئی زندگی عطا کی بلکہ دنیا کے سامنے نہایت طاقتور انداز میں پیش بھی کیا۔
آزادکشمیر میں ان دنوں سردار قیوم خان کی حکومت تھی ۔ سردار قیوم نے اپنے بھائی غفار خان کو بابائے قوم کے پاس یہ تجویز دے کے بھیجا کہ آپ اعلان کریں کہ یہ طیارہ المجاہد فورس کے گوریلوں نے اغواء کیا ہے ۔ اس کے بدلے میں آپ کو منہ مانگی دولت اور آزادکشمیر کے اقتدار میں حصہ دینے کی پیشکش کی گئی مگر آپ نے اس سودا بازی کو ٹھکرا دیا ۔ حکومتِ پاکستان نے کوہاٹ میں آپ کے ساتھ مذاکرات کیئے اور آپ کو پاکستان کی شرائط کے مطابق کام کرنے پر رضامند کرنے کی کوشش کی گئی مگر آپ نے اس پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا ۔ چنانچہ حکومتِ پاکستان نے آپ کو سینکڑوں ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا ۔ اور عجب کمال دیکھیئے کہ جس ایکٹ کے تحت آپ پر بھارت نے 1966 میں مقدمہ قائم کیا تھا اسی ایکٹ کے تحت پاکستان نے 1971 میں آپ پر اور این ایل ایف کے دیگر سینکڑوں کارکنان پر مقدمہ قائم کیا ۔ آپ پر پاکستان کی جیلوں میں جو تشدد اور مظالم ڈہائے گئے ان کی تفصیل لکھنے کے کیئے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے۔
آپ اور آپ کے ساتھیوں کے خلاف دسمبر 1971 میں مقدمے کی عدالتی کاروائی شروع کی گئی۔ استغاثہ کی طرف سے 1984 گواہان پیش کیئے گئے جب کہ آپ کے دفاع میں 1942 گواہان پیش ہوئے ۔ مئی 1973 میں عدالت نے ہاشم قریشی کے علاوہ آپ سمیت تمام گرفتار شدگان کو بری کر دیا ۔ ہاشم قریشی کو چودہ سال قید کی سزا دی گئی ۔ اس مقدمے کے دوران جاری رکھے جانے والے تشدد، جبر اور پاکستان کی سازشوں کے باعث این ایل ایف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا اور محاذ رائے شماری کو بھی بہت بڑا دھچکہ لگا ۔ مئی 1973 میں رہا ہونے کے بعد مقبول بٹ نے محاذ رائے شماری اور این ایل ایف کو دوبارہ منظم کرنا شروع کیا ۔ رہائی کے بعد منگلا قلعہ میں وزیرِاعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے آپ کے ساتھ مذاکرات کیئے اور آپ کو پیشکش کی کہ آپ پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں ۔ بھٹو نے آپ کو آزادکشمیر کی وزارتِ عظمیٰ دینے کا وعدہ کیا ۔ مگر جواب میں بابائے قوم نے فرمایا ” ہماری منزل آزادکشمیر کی وزارتِ عظمیٰ نہیں بلکہ کشمیر کی مکمل آزادی اور خودمختاری ہے”۔
آپ نے بھٹو کی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اعلان کیا کہ آپ عوام سے فیصلہ لیں گے ۔ چنانچہ محاذ رائے شماری نے 1975 کے انتخابات میں حصہ لیا ۔ مگر بھٹو نے فرشتے مقرر کر کے اپنے من پسند نتائج حاصل کیئے ۔ بابائے قوم نے آزادکشمیر اسمبلی کے 1975 کے انتخابات میں دو نشستوں سے انتخابات میں حصہ لیا مگر بھٹو نے نہ صرف آپ کو بلکہ محاذ کے تمام امیدواروں کو ہرا دیا اور اپنی مرضی کے نتائج مرتب کیئے ۔ آزادکشمیر کی سیاست سے مایوس ہو کر مئی 1976 میں بابائے قوم کچھ ساتھیوں کو کے کر پھر جنگ بندی لائن عبور کر کے بھارتی مقبوضہ کشمیر چلے گئے ۔ مگر چند دن بعد ہی آپ کو گرفتار کر لیا گیا ۔ اور سابقہ مقدمے کی فائل دوبارہ کھول دی گئی۔
ہائیکورٹ تو پہلے ہی آپکو سزائے موت دے چکی تھی، بھارتی سپریم کورٹ نے بھی 1978 میں آپکے سابقہ مقدمے میں ہائیکورٹ کی دی گئی سزائے موت کو برقرار رکھا ۔ چنانچہ آپ کو تہاڑ جیل دہلی میں منتقل کر دیا گیا ۔ فروری 1984 کے پہلے ہفتے میں برطانیہ کے شہر برمنگھم میں چند کشمیریوں نے بھارتی قونصل خانے کے ایک کلرک رویندرا مہاترے کو اغوا کر کے مقبول بٹ کی رہائی کا مطالبہ کیا ۔ مگر تین دن بعد مہاترے کی لاش ملی ۔ اس اقدام کے بعد 11 فروری 1984 کو اس عظیم قائدِ حریت کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا ۔ کلو جلاد نے پھانسی کا پھندا کھینچا ۔ تختہ دار پر آپ کے آخری الفاظ تھے “میرے وطن تو ضرور آزاد ہو گا ۰۰۰۰۰” آپ کے جسدِ خاکی کو ورثاء کے حوالے کرنے کے بجائے جیل کے احاطے میں ہی دفن کر دیا گیا۔ یوں آپ آج تک بھارت کی جیل میں قید اپنے وطن کی آزادی کے منتظر ہیں۔
(جاری ہے)
تحریر: ثمینہ راجہ۔ جموں و کشمیر