تحریر: چوہدری ذوالقرنین ہندل۔ گوجرانوالہ
پھر سے ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم مظلوم کشمیریوں کی آواز بنیں۔ ثابت کریں کے ہم انسان ہیں مسلمان ہیں اور پاکستان ہیں۔ ہمارے پاس دل ہے وہ دل جو انسانوں کے لئے درد رکھتا ہے جو ظلم کو دیکھ کر دھڑک اٹھتا ہے اور مظلوموں کے غم کا احساس دلاتا ہے۔احساس دلاتا ہے کہ ہم انسان ہیں سب سے بڑھ کر مسلمان ہیں اللہ رب العزت کی پیدا کردہ مخلوق ہیں نبی آخر الزمانۖ کی امت ہیں۔احساس دلاتا ہے ہم بے حس قوم نہیں کہ اپنے ہی بھائیوں پر ہونے والے ظلم پر خاموش رہیں۔بلکہ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم دنیا کو بار بار بتائیں کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون۔مجبور کر دیں اس دنیا کی طاقتوں کو کہ وہ حق کا ساتھ دیں۔ہمیں پوری تگ و دو سے کشمیر کی جدوجہد کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔کشمیر حسین وادیوں قدرتی خوبصورتی کی حامل ریاست۔ بچپن سے ہی کشمیر کی خوبصورتی کے بارے میں سن رکھا ہے۔
مگر کوئی خود جا کر اس حسین وادی کشمیر کو دیکھے تو وہ ضرور جانے کہ جو سنا تھا اس سے بڑھ کر پایا۔ایسا خوبصورت علاقہ کے دیکھنے والا بیان کرتے تھک جائے۔مگر افسوس جس بچپن سے کشمیر کی خوبصورتی کے بارے میں سنتے آ رہے ہیں اسی بچپن سے اس خوبصورت وادی کے خوبصورت لوگوں پر ہوتے ظلم و ستم کی داستانیں بھی سنتے آ رہے ہیں۔خوبصورتی کے لحاظ سے دیکھیں تو کشمیر جیسا خوبصورت علاقہ کوئی بھی نہیں۔اگر ظلم و ستم کے پہلو سے دیکھیں تو یقین مانئے کشمیریوں جیسا مظلوم اور بے بس بھی کوئی نہیں۔مگر اے میرے اللہ یہ کوئی توازن نہیں کہ خوبصورت پہاڑ دریا جھیلیں عنایت کر کے خوبصورت لوگوں کو ظالم و جابر کی گرفت میں رہنے دیا جائے۔
اے دنیا و جہاں کے پالنے والے ان مظلوم کشمیریوں پر اپنا خاص کرم کر کہ یہ ہمیشہ کے لئے ظالم و جابر بھارتیوں کے قبضے سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہو جائیں۔آزادانہ زندگی بسر کر سکیں۔حسین وادیوں میں حسین لوگ اپنی سریلی آوازوں میں قدرت کے حسین مناظر کو بیان کرنے والے گیت گا سکیں۔اپنے غم اپنی خوشیاں بانٹ سکیں۔ اپنے مذہب اپنی روایات کو یاد کر سکیں اور اس پر بہتر انداز سے عمل پیرا ہو سکیں۔تیری بڑائی کی حمد و ثناء کر سکیں۔قدرت کی اس حسین عنایت کو سراہ سکیں۔اپنے مذہب و روایات کے رنگوں میں رنگ سکیں۔کہہ سکیں کہ ہمارا پیارا وطن امن و سلامتی کا گہوارہ وطن خوبصورتی سے بھرا ہوا وطن قدرت کا عطا کردہ حسین و سرسبز و شاداب یہ وطن۔کشمیر پر دن بدن بڑھتے ہوئے بھارتی مظالم سے ساری دنیا واقف ہے مگر افسوس کہ دنیا آنکھیں تو کھول لیتی ہے مگر ساتھ ہی زبان کو تالا لگا لیتی ہے۔
دنیا یعنی عالمی طاقتیں عرصہ دراز سے کشمیر پر بھارتی مظالم سے واقف ہیں مگر بھارت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتیں نہ ہی بھارت پر کوئی پابندی عائد کی جاتی ہے۔برصغیر میں تقسیم کو کئی سال گزر گئے مگر اس تقسیم میں نا انصافی کی وجہ سے ریاستوں کو آزادانہ حیثیت دینے کے معاملات ابھی بھی لٹکے ہوئے ہیں۔شاید عالمی طاقتیں بر صغیر کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتیں۔اس عالمی سازش میں بھارت اور پاکستان تو جل ہی رہا ہے مگر کشمیریوں کا معاملہ لٹکا کر انکی زندگیاں اجیرن اور عزاب بنانا انتہائی افسوس ناک ہے۔پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی متعدد کوششیں کیں اور کر رہا ہے۔دوسری طرف بھارت شروع ہی سے کشمیر پر قبضہ جمائے ہوئے ہے اور اسی تگ و دو میں رہتا ہے کہ بزور بندوق کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا جائے۔
غیور کشمیری غلامی کو بہت بڑا عذاب سمجھتے ہیں اور کبھی غلامی کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی کریں گے۔بھارتی ظلم کے خلاف ہمیشہ سے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں۔بھارتی خود بھی جانتے ہیں کے وہ کسی صورت بھی کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کم نہیں کر سکتے مگر پھر بھی وہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے۔پاکستان نے ماضی میں بھی عالمی طاقتوں پر زور ڈالا کہ کشمیر پر بھارتی ظلم ختم کرایا جائے اور کشمیریوں کو آزادی دلائی جائے۔اب کے بار پھر سے شروع ہونے والے اقوام متحدہ کے اکہترویں اجلاس میں پاکستانی وزیر اعظم محمد نواز شریف کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھائیں گے۔
عید الفطر سے لے کر عیدالاضحی تک بھارت نے کشمیریوں پر ظلم جاری رکھا بلکہ ابھی بھی جاری ہے۔جس میں سینکڑوں کشمیری شہید ہوئے متعدد پیلٹ گنوں کی وجہ سے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوئے۔ایسے میں پاکستان نے بھارت کے ظلم کو دنیا کے سامنے عیاں کیا۔بھارت نے کشمیر میں زندگی کے تمام معاملات پر پابندی عائد کر دی۔یہاں تک کے نماز عید پر پابندی عائد کردی۔ایسے میں بھارتی وزیراعظم کو علم تھا کہ دنیا انکا اصل چہرہ بھی دیکھ چکی ہے۔ اسی ڈر سے مودی نے خود اقوام متحدہ کے اجلاس میں جانے کی بجائے ششمہ سوراج کو بھیجا۔مودی نے ششمہ کے ساتھ افغانی صدر اشرف غنی کو بھی بھارتی ساتھ دینے کا ٹاسک سونپا ہے۔
ذرائع کے مطابق ششمہ اور اشرف غنی کو ہٹ دھرمی دکھانے اور الٹا پاکستان کو دہشتگردوں کا پشت پناہ ثابت کرنے کا ٹاسک سونپا گیا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ بھارت پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے اربوں کی سرمایہ کاری افغانستان اور اس کے قریبی ممالک میں کر رہا ہے۔ہمیں مودی کی جگہ ششمہ سوراج کا اقوام متحدہ کے اجلاس میں جانے کو اپنی کامیابی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ میاں نواز شریف کو مودی اور غنی کی ملی بھگت کو سمجھ کر دلیرانہ طریقے سے بھارتی ہٹ دھرمیوں سے اقوام متحدہ میں پردہ اٹھانا چاہئے۔انکی سازش کو مد نظر رکھ کر لائحہ عمل طے کرنا چاہئے۔میاں صاحب کو ہر صورت کشمیریوں کی جدوجہد کو اقوام متحدہ کے سامنے اجاگر کرنا ہے۔میاں صاحب کے پاس موقع ہے کہ وہ بہتر حکمت عملی دکھا کر اپنے سیاسی مخالفین کا نعرہ مودی کا یار غلط ثابت کر دیں۔
1998 میں میاں صاحب نے عوام سے رجوع کر کے جو عزت پائی ویسی عزت دوبارہ حاصل کرنے کا وقت ہے۔اگر گزشتہ کی طرح تمام عالمی دبائو کو پرے رکھ کر میاں صاحب کشمیر کی جدوجہد آزادی اور بھارتی ہٹ دھرمیوں سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہو گئے تو عوام کی نظروں میں بھی سرخرو ہو جائیں گے۔میاں صاحب کی سیاست کا نازک موڑ ہے۔اپنی ساکھ ختم بھی کر سکتے ہیں اور اپنی عزت بحال بھی کرسکتے ہیں۔مخالف جماعتوں کو بھی مخالفت پرے رکھ کر حکومت کا کشمیر کے معاملے پر ساتھ دینا چاہئے بلکہ بہتر مشوروں سے بھی نوازنا چاہئے۔بطور پاکستانی مسلمان اور انسان ہم سب کو کشمیر کی آواز بننے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہر پلیٹ فارم پر چاہے اخبار و پرنٹ میڈیا چاہے ٹی وی چینل و آن لائن میڈیا چاہے سوشل میڈیا ان سب کے ذریعے ہر فرد کو مظلوم کشمیریوں کی آواز پوری دنیا تک پہنچانی چاہئے۔
کشمیریوں کی جدوجہد اور بھارتی ظلم کو اجاگر کرنے کا دوبارہ وقت آگیا ہے۔اگر ہم اس بار کشمیریوں کی جدوجہد کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہوگئے تو بھارت اور اسکے ہامیوں کو انکی ہٹ دھرمیوں اور چالاکیوں کا بہترین جواب مل جائے گا اور اگر ہم پورے ولولے سے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب کشمیر آزاد ہو جائے گا۔پاکستان اور پاکستانیوں کو بہتر حکمت عملی سے کشمیر کی آواز کو اونچا کرنا ہے اگر پاکستان کشمیر کی جدوجہد اور بھارتی ہٹ دھرمی کو دنیا کے سامنے لے آئے اور دنیا کو یقین دلائے کے کشمیری ظالم و جابر کی قید میں ہیں تو یہ پاکستان کی فتح اور بھارت کی شکست ہوگی۔آخر میں سب سے گزارش ہے کہ صدق دل سے کشمیریوں کی آواز بنیں اللہ اجر عطا کرے گا۔
تحریر: چوہدری ذوالقرنین ہندل۔ گوجرانوالہ