تحریر : مزمل احمد فیروزی
پانچ فروری آنے سے پہلے ہی مجھے ای میل اور موبائل پر کشمیر کے حوالے سے منعقد ہونے والی تقریبات کے دعوت نامے ملنا شروع ہوجاتے ہیں، ان تقریبات میں اس نیت سے شامل ہوتا ہوں کہ عملی طور پر شاید میں اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد نہ کر سکوں لیکن ان لوگوں کہ آواز سے آواز ملاسکوں جو کشمیر ی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر مضطرب رہتے ہیں، لیکن اس دفعہ دل چاہا کچھ لیکھ لوں تاکہ اپنے ضمیر کی آواز کو الفاظ میں بیان کر سکوں۔
ہمارے قائد محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا اور یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی جاندار بغیر شہہ رگ کے زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ ہی کوئی نظریاتی ملک ، دنیا میں کئی مثالیں ہمارے پاس موجودہیں جہا ں لوگوں سے رائے لی گی کہ آیا وہ الگ ریاست میں رہنا چاہتے ہیں یاجس ملک میں رہ رہے ہیں اسی میں رہنا چاہتے ہیں جسے دنیا بھر میں ریفرنڈم کے نام سے جاناجاتا ہے ،جس کی زندہ مثال ا سکاٹ لینڈکی جہاں لوگوں نے برطانیہ کے ساتھ رہنے کے حق میںووٹ دیا۔
کشمیری اور پاکستانی عوام کا بھی یہ ہی مطالبہ ہے کہ کشمیر کی عوام کو انھیں یہ حق دیاجائے تاکہ وہ اپنے بہتر مستقبل کا تعین کر سکیں کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ،لیکن بھارتی حکومت کو یہ بات منظور نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ کشمیری اور پاکستانیوں کے رشتے کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے اور اس کلمہ کی نسبت سے وہ پاکستان میں ضم ہونے کیلئے بے تاب ہے،جس کا اظہار کشمیری عوام ہمیشہ سے کرتی ہوئی آرہی ہے،جبکہ پاکستانی پرچم اپنے گھروں ،عوامی مقامات اور مساجد پر لہرا کر بھارتی غاضبانہ فوج اور وہاں کی کٹھ پتلی حکومت کے دانت کھٹے کرتی رہتی ہے۔
کشمیر کی وادیوں ،نہروں اور آبشاروں کو اگر جنت سے تشبیہ دیا جائے تو بے جانا ہوگا، بر صغیر پا ک و ہند کے شمال مغرب میں واقع وادی کشمیرکا کل رقبہ 69547مر بع میل ہے ،1947ء کے بعد ریاست جمو ں کشمیر دوحصوں میں تقسیم ہو گئی ،اس وقت بھارت 39102مر بع میل پر قابض ہے جو مقبوضہ کشمیر کہلاا تا ہے ۔اس کا دارلحکومت سری نگر ہے ،بقیہ علاقہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے جو کہ 25ہزار مر بع میل رقبہ پر پھیلا ہوا ہے اس کا دارالحکومت مظفر آباد ہے جو مجاہدین نے بھارتی ناپاک فوج کو ناکوں چنے چبھواکر حاصل کیا، ریاست کی کل آبادی ایک کر وڑ کے قریب ہے جس میں سے 25لاکھ آزاد کشمیر میں ہے۔
اگر ہم کشمیر کی تاریخ کو دیکھیں تو معلوم ہوتاہے کہ ہندو راجائوں نے تقریباً چارہزار سال تک اس علاقہ پر حکومت کی پھر 1846ء میں انگریزو نے ریاست جموں و کشمیر کو 75لاکھ روپے کے عوض ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر دیاجبکہ کشمیر کی آبادی 80فیصد مسلمانوں پر مشتمل تھی ،ہندو راجہ نے بزور شمشیر مسلمانوں کو غلام بنائے رکھا تقسیم ہند کے بعد ہندو مہا راجہ ہر ی سنگھ نے مسلمانوں کی مر ضی کے خلاف 26اکتوبر 1947ء کو بھار ت کے ساتھ ریاست کے الحاق کا اعلان کر دیا،جو سراسر ناانصافی اور مسلمانانِ کشمیر کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف تھا، اس کے نتیجے میں پا کستان اور بھار ت میں جنگ کا آغاز ہو گیا سلامتی کو نسل کی مداخلت پر یکم جنوری 1947ء کو جنگ بندی ہو گئی سلامتی کو نسل نے 1948ء میں منظور شدہ دوقرادادوں میں بھارت اور پاکستان کو کشمیر سے افواج نکالنے اور وادی میں رائے شماری کر وانے کیلئے کہا بھارتی وزیر اعظم پنڈت جوا ہر لال نہرونے رائے شماری کر وانے کا وعدہ کر لیا مگر بعد ازاں اس سے منحرف ہو گیا۔
پاکستان نے بھارت سے آزادکر ائے گئے علاقہ میں آزاد کشمیر کی آزاد ریاست قائم کر دی ۔ حق خودارادیت کشمیر یوں کا حق ہے ،جسے اقوام عالم 1948/49میں اقوام متحدہ اور سلامتی کو نسل کے فورم پر تسلیم کر چکی ہیں ،اور جس کے لئیے آزادی و حر یت کا جذبہ سے اہل کشمیر نے لازوال قربانیاں دی ہیں ،اور ابھی تک دے رہے ہیں ہم صرف یکجہتی کی بات کر تے ہیں یہ کیسی یکجہتی ہے !!شاید ہماری یکجہتی صرف چھٹی منانے تک رہ گئی ہے لیکن اس بات سے بے خبر کہ یہ دن اُس مظلوم قوم کے لئے ہے جن کی صبح و شام گو لہ باری اور بارود کے سائے میں گزر تی ہے جن کی ماں،بیٹیاں اور بہنوں کی عصمت محفوظ نہیں جن کے بچے خوف کے سائے میں پر ورش پا رہے ہیں ،اُنہوں نے آج تک آزاد فضا میں سانس نہیں لیا پھر بھی وہ ایک ہی نعرہ فضاء میں بلند کر تے ہیں ”کشمیر بنے گا پاکستان ”لیکن افسوس ! پا کستانی قوم اِن لوگوں کو بھول بیٹھی ہے۔
تاریخ کے اوراق پلٹے تو معلوم ہو تا ہے قیام پا کستان کے بعد آزادی جموں وکشمیر کی جدو جہد کو 65برس ہو چکے ہیں مگر آزادی حق کی یہ تحر یک بہت پرانی ہے مہاراجہ گلاب سنگھ نے جب کشمیر کو انگریزوں سے خر ید کر موجودہ ریاست جموں و کشمیر کی تشکیل کی تو کشمیر یوں نے اپنے حقو ق کے لئے ”کشمیر جہموریہ ” تحریک چلائی ،1931میں کشمیر ی عوام نے اپنے سینوںمیں گو لیاں کھا ئیں ،آزادی کے لئے قر با نیاں دیں اس وقت بھی وہ قربا نیا ں دے رہے ہیں ۔کشمیر کی آزادی کی جہد و جہد میں کئی لاکھ کشمیر ی شہد ہو چکے ہیںاور اور اس زائد زخمی ہو ئے کشمیر عوام جانی و مالی قربانیوں کے باوجود اپنے مقا صد حا صل نہ کر پائے ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیری عوام کی آزادی کی جد وجہد میں مزید جوش و جذبہ پر وان اور تڑپ بڑ ھ رہی ہے ،ہر عہد میں کشمیریوں نے اپنی تا ریخ مزاحمت سے اپنی آزادی کی تڑپ کو عیاں کیا ہے کشمیر ی عوام آج بھی ہند وستانی حکمران طبقے کے خلاف آواز بلند کیے ہوئے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اس طرح دن منا نے سے کیا کشمیر ی عوام کی نجات ممکن ہے ؟یقینا نہیں ،اگر ایسا ہو نا ہو تا تو شاید بہت پہلے ہو چکا ہو تا کشمیری عوام سے 5فروری کو یکجہتی منا نے سے کشمیر آزاد نہیں ہو گا اگر اس کی آزادی منظور ہے اس کے لیے مزیدعملی اقدام کر نا ہو نگے آج کو ئی شخص کسی کے ایک فٹ جگہ پر قا بض ہو جائے تو وہ لوگ مر نے مرانے تک پہنچ جا تے ہیں تو پھر پا کستان کشمیر کو کیسے دشمنوں کو دے سکتا ہے ؟کشمیر کے حل کے لیے ایک کشمیر کمیٹی بنا ئی ہو ئی ہے اسکا کیا فائدہ ؟سوائے ملک کے خزانے پر بوجھ کے اگر ہما رے حکمرانوں کو تجارت کر نی ہوتو چند ماہ میں ڈائیلا گ کر کے تجارت کے لیے سر حد یں کھول دی جاتی ہیں مگر کشمیر کے نام پر یہ حکمران خاموش تما شا ئی بنے بیٹھیں ہیں کشمیری عوام پر جو ظلم ہندو ستانی حکمران ڈھا رہے ہیں۔
اس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی آج بھی کشمیر کے لو گ محمد بن قاسم کا انتظار کر رہے ہیں جو آئے اور ان کو آزادی دلائے ۔ہم اس جبر کو دیکھ کر کیس طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں یہ سوچ کر کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اگر یہی نیت رہی ہماری تو ہم کبھی بھی کشمیر کو پا کستان کا حصہ نہیں بنا سکے گے اگر ہم یہی سو چتے رہے کہ ہما رے حکمران کچھ کر یں گے تو اب تک یہ حکمران کیوں سوئے ہوئے ہیں۔
ہم کو ایک ہونا ہو گا آج یو م یکجہتی کشمیر یا کشمیر ڈے پر پاکستانی عوام کو یہ ضرور سوچنا ہو گا کہ کشمیر عوام یکجہتی کی بنیاد اور طریقہ کار کیا ہو گا ؟کیا یکجہتی حکمران طبقے کے نقطہ نظر پر کی جانی چاہئے یا عوام کے ؟کشمیر کا مسئلہ پا کستان کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اہل پاکستان ایک بار پھر کشمیری بھائیوں کے حق خود رادیت کی بھر پور حمایت کا اعلان کر تے ہو ئے یک جہتی کا اظہار کر تے ہیں ،آئے آج اس کشمیر ڈے کے مو قع پر ہم عہد کر یں کہ ہم اپنے مسلم حکمرانوں کو کشمیر کے آزاد ی کے لے مجبور کر یں گے اور کشمیری بھا ئیوں کو ان کا حق دلائیں گے۔
ہم مسلمان سراپا احتجاج رہینگے
جب تک کشمیر میں کفار رہینگے
تحریر : مزمل احمد فیروزی