اسلام آباد : مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام معاملات پر غیر مشروط مذاکرات چاہتا ہے اور اگر بھارت کوئی شرط نہ رکھے تو اب بھی نئی دلی جانے کو تیار ہوں۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے بھارت کے ساتھ سیکرٹری سطح کے مذاکرات ختم نہیں کئے گئے ہیں بلکہ ہم تو آج بھی بھارت کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کے لئے تیار ہیں لیکن بھارت اوفا میں طے پانے والے نکات پرعمل کرنے سے گریزاں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اوفا میں دونوں ممالک کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے، مذہبی سیاحت کے فروغ اور دونوں ممالک کی جیلوں میں موجود قیدیوں کی رہائی سمیت تمام حل طلب مسائل پر بات چیت کی جائے گی اور پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے اہم مسئلہ ہی کشمیر کا ہے اور کشمیر کے بغیر بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتے۔
بھارت چاہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے بغیر مذاکرات کئے جائیں لیکن ہمارے لئے یہ ممکن نہیں کہ ہم کشمیر کے بغیر بھارت سے مذاکرات کریں، بھارت کی جانب سے سرکاری سطح پر مذاکرات منسوخ ہونے کی اطلاع نہیں ہے لیکن اس قسم کی خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ بھارت حریت رہنماؤں سے ملاقات کو جواز بنا کر مذاکرات منسوخ کر رہا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔
مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ آئے گی، پاکستان کشمیر تحریک کی حمایت کرتا ہے، کشمیری رہنماؤں سے ملاقات پرانی روایت ہے اور کشمیری رہنماؤں کی نظر بندی تشویشناک ہے۔ اگر کشمیر کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پھر بھارت نے وہاں پر 7 لاکھ فوج کو کیوں تعینات کر رکھا ہے، کشمیری عوام نے کیوں آزادی کی تحریک شروع کر رکھی ہے اور آئے روز بھارت کی جانب سے نہتے کشمیریوں پر کیوں تشدد کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو بھارتی رویے کا نوٹس لینا چاہیئے اور اس بات کا جائزہ لینا چاہیئے کہ کیا بھارت کی جانب سے مذاکرات کا منسوخ کرنا ٹھیک عمل ہو گا۔ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس، سلامتی کونسل اور ہر عالمی فورم پر اٹھایا جائے گا۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں، ’را‘ کے د ہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت بھارتی حکومت اور اقوام متحدہ کو بھی فراہم کئے جا چکے ہیں۔