تحریر: محسن فارانی
یہ تو سب جانتے ہیں کہ جنگ ستمبر 1965ء کا سبب کشمیر میں آپریشن جبرالٹر اور آپریشن گرینڈ سلام بنے تھے لیکن ان کے پیچھے کارفرما قادیانی ہاتھ زیادہ تر پردئہ اخفا میں رہے ہیں۔ آپریشن جبرالٹر وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو، سیکرٹری دفاع عزیز احمد اورقادیانی جنرل اختر ملک کا منصوبہ تھا۔ چین بھارت جنگ 1962ء کے دوران میں مقبوضہ کشمیر آزاد کرانے کا سنہری موقع تھا جبکہ بقول قدرت اللہ شہاب حکومت چین نے صدر ایوب کو پیغام بھجوایا تھا کہ اس وقت پاکستان چاہے تو مقبوضہ کشمیر میں فوجی کارروائی کر سکتا ہے، لیکن ان دنوں صدر ایوب کو کسی کارروائی سے روکنے کیلئے بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو کے ایماء پر امریکی نائب وزیر خارجہ ایورل ہیری مین اور برطانوی نائب وزیر خارجہ ڈنکن سینڈیز اسلام آباد پہنچے ہوئے تھے۔
نہرو کی طرف سے مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی جھوٹی یقین دہانی دونوں صلیبیوں کی زبانی سن کر جنرل ایوب بے عملی کی تصویر بنے رہے جبکہ چین نے بھارت سے لداخ اور نیفا (نارتھ ایسٹ فرنٹیئر ایجنسی جہاں چین، بھارت اور برما کی سرحدیں ملتی تھیں) کے ہزاروں مربع میل کے علاقے چھین لئے، پھر پاکستانی وزیر خارجہ بھٹو اور بھارتی سکھ وزیر خارجہ سورن سنگھ میں کئی مہینوں تک مذاکرات کے دور چلے جن کے آخر میں سورن سنگھ نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ ہمارا کشمیر تو بھارت کا اٹوٹ انگ ہے البتہ پاکستان کے پاس جو کشمیر ہے اس پر کوئی بات ہو سکتی ہے۔
صدر ایوب کو بڑا قلق تھا کہ ہندو پنڈت جواہر لال نہرو نے انہیں دھوکا دیا، اب تین کے ٹولے نے انہیں مقبوضہ کشمیر کو گوریلا کارروائی سے آزاد کرانے کا عکس دکھایا تو انہوں نے آپریشن جبرالٹر کی منظوری دے دی اور اس آپریشن کی منصوبہ بندی کا یہ حال تھا کہ آزاد کشمیر سے تین چار ہزار بکروال (چرواہے) تین ہفتوں کی معمولی سی ٹریننگ کے بعد تین فورسز کی شکل میں مقبوضہ کشمیر میں داخل کر دیئے گئے جومحدودوسائل اور ناقص تربیت کے باوجود بہادری سے لڑے۔ ادھر بھٹو صاحب نے امریکیوں کے حوالے سے صدر ایوب کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ اس وقت بھارت بین الاقوامی سرحد پار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
یوں 6 ستمبر کو بھارت کے لاہور اور سیالکوٹ پر اچانک حملے سے پاکستان کے لئے بہت نازک صورت حال پیدا ہو گئی تو پاک افواج کے افسروں اور جوانوں نے جہادی جذبے سے سرشار ہو کر دشمن کے شیطانی عزائم خاک میں ملا دیئے۔ پاکستان کی سرحدوں اور شہروں کا دفاع کرتے ہوئے میجر شفقت بلوچ، میجر عزیز بھٹی شہید، بریگیڈیئر احسن رشید شامی شہید، میجر جنرل ابرار حسین، میجر جنرل سرفراز، ونگ کمانڈر محمد محمود عالم، سکوارڈرن لیڈر سرفراز رفیقی شہید اور یونس حسن شہید اور پاک آبدوز غازی کے مجاہدوں نے ایسے لازوال جنگی کارنامے انجام دیئے جو عالمی جنگوں کی تاریخ کے صفحات کی زینت ہیں۔
آغا شورش کاشمیری اپنی آخری تصنیف ”تحریک ختم نبوت” میں لکھتے ہیں: عجیب بات ہے کہ کشمیر کے محاذوں کی جنگ میں قادیان (بھارت) سے ملحق سرحدات کی کمان ہمیشہ میرزائی جرنیلوں کے ہاتھ میں رہی ہے۔ 1947-48ء کے جہاد کشمیر میں قادیانی امت کی تیار کردہ ”فرقان بٹالین” سیالکوٹ کے نزدیک جموں کے محاذ پر واقع گائوں معراجکے میں متعین کی گئی جس کی خدمات کی انگریز کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے ایک خط میں تحسین و ستائش کی۔ اس کے بعد 1965ء کی جنگ جو کشمیر سے شروع کی گئی وہاں چھمب اور جوڑیاں کے محاذ کی کمان ابتدائً میںجنرل اختر ملک اور بریگیڈیئر عبدالعلی ملک کے ہاتھ میں تھی جو سگے بھائی ہونے کے علاوہ قادیانی العقیدہ تھے۔ جنرل اختر ملک ترکی میں وفات پا گئے، ان کی نعش ربوہ لا کر ”بہشتی مقبرے” میں دفن کی گئی۔ پنجاب میں پانچویں اور چھٹی جماعت کے تاریخ و جغرافیہ کے نصاب 1965ء کی جنگ کے ہیرو جنرل اختر ملک اور بریگیڈیئر عبدالعلی کو بتایا گیا اور اوّل الذکر کی سہ رنگی تصویر بھی شامل کی گئی ہے۔ البتہ دوسری تصویر جنرل ابرار حسین کی بھی ہے۔
شورش لکھتے ہیں:جنرل اختر ملک کے تذکرے کی رعایت سے دو واقعات سن لیجئے، نواب کالا باغ (گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خاں) نے 1965ء کی جنگ کے واقعات پر گفتگو کرتے ہوئے راقم سے بیان کیا کہ 1965ء کی جنگ میں اللہ تعالیٰ نے ہماری محافظت کی ورنہ صورت حال کے پامال ہونے کا احتمال تھا۔ نواب صاحب نے فرمایا: مرزائی پاکستان میں حصول اقتدار سے مایوس ہو کر قادیان پہنچنے کے لئے مضطرب ہیں، وہ بھارت سے مل کر یا بھارت سے لڑ کر ہر صورت میں قادیان چاہتے ہیں اور اس غرض سے پاکستان کو بازی پر لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔
ایک دن میرے ہاں جنرل اختر حسین ملک آئے اور میرے ملٹری سیکرٹری کرنل محمد شریف سے کہاکہ گورنر صاحب سے ملنا ہے۔ میں نے کرنل صاحب سے کہا کہ اگر میں نے جنرل ملک سے ملاقات کی تو صدر ایوب جو مجھ سے پہلے ہی بدظن ہو چکے ہیں اور بدظن ہوں گے اور یہ حسن اتفاق ہے کہ میں بھی اعوان ہوں، جنرل ملک بھی اعوان ہے اور تم (ملٹری سیکرٹری) بھی اعوان ہو۔ صدر ایوب کے کان میں الطاف حسین (ڈان) نے بات ڈال رکھی ہے اور اس سے کسی امریکی نے کہا ہے کہ نواب کالا باغ اندر خانہ خود صدر بننے کی سازش کر رہا ہے۔
نواب صاحب نے بتایا: اس وقت تو جنرل ملک لوٹ گئے لیکن چند دن بعد نتھیا گلی میں ملاقات کا موقع پیدا کر لیا، کہنے لگے: آپ صدر ایوب کو آمادہ کریں کہ یہ وقت کشمیر پر چڑھائی کیلئے بہترین ہے۔ یقین ہے کہ ہم کشمیر حاصل کر لیں گے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ بیٹھے بٹھائے جنرل کو یہ کیا سوجھی؟ بہرحال میں نے عذر کر دیا کہ میں نہ تو فوجی ماہر ہوں نہ مجھے جنگ کی مبادیات کا علم ہے، آپ خود ان سے بات کریں۔ جنرل ملک نے کہا کہ صدر نہیں مانتا، وہ کہتا ہے کہ اس لڑائی کے جلد بعد بھارت براہ راست پاکستان کی سرحدوں پر حملہ کر دے گا۔ میں نے کہاکہ صدر مجھ سے پہلے ہی بدگمان ہے، وہ لازماً خیال کرے گا کہ اعوان اس کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔
جنرل اختر مجھ سے جواب پاکر چلے گئے، اسی اثنا میں سی آئی ڈی کی معرفت مجھے ایک دستی اشتہار ملا جو آزاد کشمیر میں کثرت سے تقسیم کیا گیا تھا۔ اس میں لکھا تھا: ”ریاست جموں و کشمیر ان شاء اللہ آزاد ہو گی اور اس کی فتح و نصرت احمدیت کے ہاتھوں ہو گی۔” (پیش گوئی، مصلح موعود)۔ اور میرے لئے یہ ناقابل فہم نہ تھا کہ جنرل اختر ملک اس پیش گوئی کو سچا ثابت کرنے کے لئے دوڑ دھوپ کر رہے تھے۔ راقم (شورش) نے نواب کالا باغ کی یہ گفتگو محترم مجید نظامی ایڈیٹر نوائے وقت سے بیان کی تو انہوں نے تائید کی کہ ان سے بھی نواب صاحب یہی روایت کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال سے ذکر ہوا تو حیران ہوئے: فرمایا اس جولائی میں ظفر اللہ خاں (قادیانی ، سابق وزیر خارجہ) نے مجھ سے امریکہ میں کہا تھا کہ میں صدر ایوب کو پیغام دوں کہ ”یہ وقت کشمیر پر چڑھائی کے لئے موزوں ہے، پاکستانی فوج ضرور کامیاب ہو گی۔
جہاں تک ہندوستان کے ہاتھوں بین الاقوامی سرحد کے پامال ہونے کا تعلق ہے، ایسی کوئی چیز نہ ہوگی۔” میں نے صدر ایوب سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا: ”مجھ سے کہہ دیا، اور کسی سے نہ کہنا۔ ” غالباً قادیانی سابق وزیر خارجہ ظفر اللہ خاں نے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی کشمیر پر چڑھائی کے متعلق قائل کر لیا ہو گا اور بھٹو نے اسے ”سنہری موقع” جان کر ایوب کو قائل کر لیا۔ آگے جو کچھ ہوا وہ ہماری تاریخ ہے۔
تحریر: محسن فارانی