تحریر : فہیم اختر
جموں میں عبداللہ کی کوئی دکان تو نہ تھی لیکن وپ اپنے ہی گھر پر رنگریزی کا کا م کرکے گرد واقعات کیا کرتا تھا بیوی تین بیٹیاں چھوڑکر فوت ہوچکی تھی 9 برس کی زہرہ 12 برس کی عطیہ اور 16 برس کی رشیدہ اکتوبر 1947ء میں جب مہا راجہ ہری سنگھ نے اپنی زاتی نگرانی میں جموں کے مسلمانوں کا قلع قمع کرنے کا پروگرام بنایا تو مسلمان خاندانوں کو پولیس لائنوں میں جمع کرکے اس بہانے بسوں اورٹرکوں میں سوار کرا دیا جاتا تھا کہ انہیں پاکستان میں سیالکوٹ کے بارڈر تک پہنچا دیا جائیگا۔
راستے میں راشٹریہ سیوک سنگ(ہندو تنظیم)کے ڈوگرہ اور سکھ درندے بسوں کو روک لیتے تھے جوان لڑکیوں کو اغواء کرلیا جاتا تھا جوان مردوں کو چن چن کر تہ تیغ کر دیا جاتا تھا اور بچے کچھے بچوں اور بوڈھوں کو پاکستان روانہ کردیا جاتا تھا جب یہ خبریں جموں شہر میں پھیلنا شروع ہوئیں تو عبداللہ پریشان ہو کر پاگل ہوگیا اس کی زہرہ عطیہ اور رشیدہ پر بھی جوانی کے تازہ تازہ پھول کھل رہے تھے عبداللہ کو یقین تھاا کہ اگر وہ ان کو اپنے ساتھ لے کر کسی قافلے میں روانہ ہوا تو راستے میں اسکی تینوں بیٹیاں درندہ صفت ڈوگرہ کے ہتھے چڑھ جاییں گے۔
اپنے جگر گوشوں کی عزت محفوط کرنے کیلئے اس نے طرح طرح کی تراکیب سوچی کبھی ایک خیال کبھی دوسرا خیال وہ ہر حال میں پاکستان جانا چاہتا تھا اور ساتھ ہی اپنے جگر گوشوں کی عصمت بھی بچانا چاہتا تھا اس نے آخر کار زہن میں ایک نہایت پختہ منصوبہ تیار کرلیا نہا دھو کر مسجد میں کچھ نفل پڑھے قصاب کی دکان سے ایک تیز دھار چھری مانگ لایا اور گھر آکر تینوں بیٹیوں کی عصمت کی حفاظت اور سنت ابراہیمی کے فضائل پر بڑا وعظ دیا زہرہ اور عطیہ کم عمر تھیں اور گڑیا کھیلنے کی حد سے آگے نہیں بڑھے تھے وہ دونوں اپنے باپ کی باتوں میں آگئے دلہنوں کی طرح سج دھج کر انہوں نے دو دو نفل پڑھے اور پھر ہنسی خوشی دروازے کی دہلیز پر سر ٹکا کر لیٹ گئے۔
عبداللہ نے آنکھیں بند کئے بغیر اپنی چھری چلائی اور باری باری دونوں کا سر تن سے جدا کردیاتھوڈی ہی دیر میں دروازے کی دہلیز پر زہرہ اور عطیہ کی الگ الگ گردنیں پڑی ہوئی تھی کچھ فرش پر گرم گرم خون کی دھاریں بہہ بہہ کر بیل بوٹے کاڑھ رہی تھی گھر سے ایک سوندھی سوندھی سی خوشبو ؤرہی تھی عبداللہ کے پاس ابھی امید کے کئی آثار تھے وہ کسی بھی راستے پر چل کر اس کنویں سے باہر نکل سکتا تھا لیکن پاکستان پہنچنے کی اتنی جلدی کردی کہ اس نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی دو جگر گوشوں کا سر تن سے جدا کردیا کہ کہیں پاکستان بنانے کے جرم میں ان کی عصمتوں کے ساتھ نہ کھیلا جائے اس نے دور پڑے روشنی کی طرف بھی نہیں دیکھا جو شاید نا امیدی اور مایوسی سے بہت ہی بہتر تھے۔
یہ داستان گلگت کے سابق گورنر عبداللہ کے بیٹے قدرت اللہ شہاب نے سوانح شہاب نامہ میں زکر کیا ہے یہ صرف ایک مثال کے لئے دی گئی داستان ہے اس قسم کے سینکڑوں داستانیں تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ کرلیا ہے اس داستان کو یہاں زکر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں چند ناسمجھوں اور سوشل میڈیا ریٹنگ کے دلدادوںنے یہ بات عام کررکھی کہ گلگت بلتستان میں 5فروری کو یوم نجات کشمیر منایا جائیگا۔
شاید انہیں یہ معلوم نہیں کہ پاکستان کی ریاستی پالیسی ( جس پاکستان کے خود کو محب ثابت کرنے کے لئے یہ ہورہا ہے ) میں سرفہرست کشمیر کی پالیسی ہے پاکستان کے حکمران نہ سمجھے بھی تو گلگت بلتستان کا احسان ہے پاکستان پر کچھ ناسمجھی اور کچھ سوچ سمجھ کے بعد ہی گلگت بلتستان کو کشمیر حصہ کے ساتھ منسلک رکھا گیا ہے۔
یکجہتی کشمیر کا مسئلہ اور گلگت بلتستان میں منانے کا مسئلہ اب تک تو عام اور روایتی انداز میں جاری تھا اور اس پر سوشل میڈیا کے تبصروں پر لکھنے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی ہے لیکن قلم اٹھانے کی مجبوری تب بنی جب عوامی ایکشن کمیٹی ،جس نے اب تک اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ سے ہٹ کر بھی کردار نبھایا ہے ،کے ایک زمہ دار نے یہ بات کہی کہ 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے اور نہ منانے کے حوالے سے عوامی ایکشن کمیٹی نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے گویا ان کے سامنے یوم یکجہتی کشمیر جو ریاست پاکستان کی پالیسی کا حصہ ہے گلگت بلتستان میں آکر متنازعہ بن گئی درج بالا مثال صرف اس لئے دی گئی ہے کہ یکجہتی کی دلیل ہوجائے ورنہ دلیل کی بھی ضرورت نہیں۔
یکجہتی کشمیر کو لے جاکر گلگت بلتستان کے متنازعہ حیثیت کے ساتھ ملانا بڑا عجیب منطق ہے گلگت بلتستان یوں تو یکجہتی منانے کے حوالے سے بڑا مشہور ہے اگر ایران اور سعودی عرب کا آپس میں صرف تلخ کلامی بھی ہوجائے تو دونوں اطراف سے دونوں ممالک کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے سڑکوں پر نکلنا رواج ہے ۔ سعودی عرب ،یمن اور حوثی باغیوں کی لڑائی میں جس انداز میں یکجہتی کااظہار کیا گیا وہ کوئی بھولے نہیں ہے لوگوں نے اپنے اوپر پرچے بھی کٹواکر یکجہتی کااظہار کیا لیکن کوئی پہاڑ نہیں ٹوٹا اگر داعش گلگت بلتستان سے ہزاروں میل دور کوئی کاروائی کریں تو یکجہتی کااظہار سب سے پہلے گلگت بلتستان میں ہوتا ہے۔
اگر آج اقتصادی راہدار کا معاملہ نہ اٹھتا اور اس میں پھر مبینہ طور پر گلگت بلتستان کو محروم نہیں رکھا جاتا تو تب بھی معاملہ کچھ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے آئینی حیثیت اور حقوق کا معاملہ زیر بحث ہے ورنہ یہ دن یہاں بھی ویسے ہی منایا جاتا جن لوگوں نے اب تک یوم یکجہتی کو منانے کا اظہار کیا ہے انہوںنے یہ کہہ کر نہیں کیا ہے کہ گلگت بلتستان اور کشمیر کا آپس میں رشتہ ہے کیا لاہور میں جی بی کے لوگ بستے ہیں۔
اسلام آباد میں وہ لوگ بستے ہیں جو جی بی کو کشمیر کا حصہ سمجھتے ہیں کیا قاضی حسین احمد ، مولانا فضل الرحمن ،سمیت تمام مذہبی رہنمائوںنے گلگت بلتستان کو سامنے رکھتے ہوئے یکجہتی کااظہار کیا ہے ۔کشمیر کی وجہ سے متناذعہ رہنے کاردعمل اتنا ہی کافی ہے کہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن اور سپیکر فدا محمدناشاد نے احتجاجی طور پر مرکزی سیمینار جو کشمیر میں ہوگا میں شرکت سے انکار کردیا ہے ۔( اس موضوع پر مزید بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن گلگت بلتستان میں لوڈشیڈنگ اس بات کی اجازت نہیں دیتی)۔
تحریر : فہیم اختر