تحریر: علی عمران شاہین
مظلوم کشمیری قوم دنیا کی ایک طویل ترین تحریک آزادی چلا رہی ہے۔ تقسیم ہند کے وقت اس مظلوم قوم کوحق رائے دہی نہ مل سکا اور انگریز و ہندو کی مشترکہ سازش اور کاوش نے انہیں غلامی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا۔ کشمیری قوم کیلئے 26اکتوبر 1947ء کا دن ظلم و ستم کی ایک نئی داستان کے ساتھ طلوع ہوا جب ریاستی حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے سرینگر سے بھاگ کر نئی دہلی میں پناہ لی تھی اور بھارت کے گورنرجنرل لارڈ مائونٹ بیٹن کے بقول اس نے ایک معاہدہ پر دستخط کئے جس کے تحت خطہ جموں کشمیر بھارت کو دیا گیا۔ اس ”معاہدے” کے اگلے روز یعنی 27اکتوبر 1947ء کو بھارتی افواج سرینگر کے ہوائی اڈے پر اتر گئیں اور پھر وہ دن اور آج کا دن… کشمیری قوم سے ہزار ہابار کیا گیا وعدہ، کہ انہیں ”حق استصواب ”دیا جائے گا، ایفاء نہیں ہو سکا۔
بھارت کہتا ہے کہ مہاراجہ کشمیر نے یہ سارا خطہ انہیں لکھ کر دے دیا تھا لہٰذا اب وہ اس کے مالک و مختار ہیں جبکہ کچھ ہی عرصہ پہلے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ بھارت کے پاس ایسے کسی معاہدے کی کوئی دستاویزہی نہیں کیونکہ ہری سنگھ نے عملی طور پر ایسا کوئی معاہدہ کیا ہی نہیں تھا۔ تقسیم ہند کو عملی جامہ پہنانے والے آخری برطانوی وائسرائے مائونٹ بیٹن نے بھارت کا گورنر جنرل بن کر پاکستان دشمنی میں الحاق کی کسی دستاویزکے بغیر ہی فیصلہ بھارت کے حق میں سنا دیا تھا۔
سرینگر میں بھارتی افواج اترنے کے بعد گورنر جنرل پاکستان جناب قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی مسلح افواج کے سربراہ انگریز جنرل ڈگلس گریسی کو حکم دیا تھا کہ وہ بھی افواج کشمیر میںداخل کرے اور کشمیر پر پاکستان کا قبضہ قائم کرے لیکن اس انگریز جنرل نے بھی بہانے تراشتے ہوئے یہ حکم کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس دوران میں ڈوگرہ فوج کے مظالم کے خلاف کشمیری اٹھ کھڑے ہوئے تو ان کا ساتھ دینے کے لئے ہمارے قبائلی عوام پہنچے تھے اور انہوں نے موجودہ آزاد کشمیر آزاد کروانے میںکامیابی حاصل کی تھی۔ اس جدوجہد میں بھارت خود روتا ،چیختا اقوام متحدہ پہنچا تھا کہ جنگ بندی کروائی جائے اور یہ کہ بھارت وعدہ کرتا ہے کہ وہ بہت جلد کشمیری عوام کو استصواب کا حق دے گا۔
اسی عرصہ میں بھارت نے جموں میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل کر کے بڑے علاقے سے مسلمانوں کو جہاں بے گھر کیا، وہیں مقبوضہ جموں کے خطہ کو مسلم اکثریت کے بجائے ہندو اکثریت میں تبدیل کر ڈالا تھا۔ساری دنیا تماشا دیکھ رہی تھی لیکن بھارت پر کوئی دبائو ڈالنے کو تیار نہیں تھا کہ وہ استصواب کا وعدہ کب پورا کرے گا۔ اسی ناانصافی اور ظلم و جبر کو دیکھتے ہوئے بالآخر کشمیری قوم نے ہر طرح کی سیاسی جدوجہد کی ناکامی کے بعد 1980ء کی دہائی میں دوبارہ جدوجہد آزادی کا فیصلہ کیا۔
11فروری 1984ء کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے علاقہ ترہگام کے رہنے والے مقبول بٹ کو بھارت نے تہاڑ جیل میں یہ کہہ کر پھانسی دے دی کہ اس نے بھارتی مفادات پر حملے کئے ہیں۔ بھارت کوبخوبی اندازہ تھا کہ یہ پھانسی اس کے اپنے گلے کا طوق بن جائے گی تبھی تو بھارت نے مقبول بٹ کی لاش بھی اس کے لواحقین کے حوالے نہ کی اور مقبول بٹ کوتہاڑ جیل میں دفنا دیا ۔ کشمیری قوم نے دو سال سے زائد عرصہ دنیا کے ہر دروازے پر دستک دی کہ انہیںمحض ان کے بیٹے کی لاش دی جائے لیکن جب کہیں سے شنوائی نہ ہوئی تو پھر کشمیری قوم نے رزم آرائی کا فیصلہ کیا۔
جون 1986ء میں کشمیریوں نے سرینگر سے جہادی تحریک شروع کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروںکشمیری جہاں خونی لکیر (کنٹرول لائن) عبور کر کے آزاد کشمیر پہنچے تو وہیں ہزاروں نے تعلیم، کاروبار اور گھر بار کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ کر یخ بستہ کھائیوں، گھاٹیوں، 15ہزار فٹ سے بلند برفانی چوٹیوں کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا اور آزادی کے لئے ہر روز کٹنے مرنے لگے۔ بھارت نے ان کشمیریوں کو بزور طاقت دبانے کے لئے ہر حربہ استعمال کرنا شروع کیا اور کشمیریوں کا اس قدر خون بہایا کہ اس وقت مقبوضہ جموں کشمیر کا کوئی ایسا گھرانا نہیں جس میں کوئی شہید، قیدی، اپاہج یا گھر سے لاپتہ فرد نہ ہو۔ کوئی ایسا خاندان نہیں جن کی املاک و جائیداد کو جلایا، گرایا، تباہ و برباد کیا اور لوٹا نہ گیا ہو۔ اس عرصہ میں کشمیری قوم کے ایک لاکھ جوان، بچے، بوڑھے اور عورتیں جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ 22ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہوئیں تو ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہیں۔
یہاں 10 ہزار سے زائد خواتین سے جنسی زیادتی کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ ہر جوان کشمیری کے سر پر ایک بھارتی فوجی بندوق تانے کھڑا ہے کہ اگر اس نے بھارت کی مرضی کے خلاف کوئی حرکت کی تو وہ اس کا بھیجا وہیں اڑا دے گا اور ایسا ہر روزہو رہا ہے۔ نوجوانوں اور بچوں کے لاشے ہر روز ہر علاقے سے اٹھ رہے ہیں لیکن کوئی کشمیری سربھارت کے سامنے سر جھکانے کو تیار نہیں۔ وہ خطۂ کشمیر جسے بانی پاکستان نے اپنے وطن کی شہ رگ قرار دیا تھا کہ پاکستان کو سیراب کرنے والے سارے دریائوں کا پانی اسی کشمیر کے سر اور سینہ سے نکلتا ہے، وہ کشمیر جس کے سارے قدرتی راستے پاکستان کی جانب ہیں جو سارا سال بند نہیں ہوتے، وہ کشمیر کہ جس کی زمانہء دراز سے منڈی راولپنڈی ہے، جو مذہب، جغرافیہ، تاریخ و ثقافت، رنگ و نسل کے ہر بندھن سے پاکستان کا حصہ ہے۔
آج بھی وہ پاکستان سے الحاق کیلئے اس قدر بے چین ہے کہ وہاں ہر روز پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا جاتا ہے۔اس جرم میں ہر روز کتنے بچے اور بوڑھے گولیاں کھاتے، جیل جاتے ہیں لیکن آوازئہ حق بلند کرنے سے باز نہیں آتے۔ ہم ذرا سوچیں تو سہی کہ اسی کشمیر میں ان گھرانوں کے روز و شب کیسے ہوں گے کہ جن کے معصوم بچے نصف شب کو سوتے میں چھاپے مار کر اٹھا لئے جاتے ہیں اور پھر جموں سے لے کر تہاڑ اور راجستھان کے عقوبت خانوں میں انہیں تڑپا تڑپا کر اس جہاں سے دوسرے جہان بھیج دیا جاتا ہے لیکن دنیا کا کوئی ادارہ، فرد، تنظیم یا ملک اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ آزاد کشمیر کے کتنے علاقوں میں مہاجرین مقبوضہ کشمیر کے کیمپ آج بھی قائم ہیں جو یہاں انتہائی مشکل اور تکلیف زدہ زندگی تو گزار رہے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر واپس جانے کو تیار نہیں۔
بھارت نے کشمیری قوم کو استصواب کا حق کیا دینا تھا وہ تو انہیں ان کے بابائے قوم مقبول بٹ اور افضل گورو کو پھانسی کے بعد لاشیں بھی دینے کو تیار نہیں۔ یہ کیسی دنیا ہے کہ جہاں انڈونیشیا توڑ کر مشرقی تیمور اور سوڈان توڑ کر جنوبی سوڈان بنا دیا جاتا ہے لیکن کشمیریوں کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیری قوم کو اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کے بعد اپنی وکالت و حمایت کیلئے پاکستانی قوم سے امیدیں وابستہ ہیں۔
اگر پاکستان اس کشمیری قوم کا صحیح معنوں میں ہاتھ تھام لے جو اپنے خون سے پاکستانی کھیتوں اور کھلیانوں کو سیراب کر کے ہمارے نان جویں کا اہتمام کر رہی ہے تو وہ دن دور نہیں جب کشمیر آزاد ہو کر پاکستان کا دست و بازو بن جائے گا اور پاکستان کی سرحدوں، زراعت اور جغرافیے کو لاحق خطرات بھی ٹل جائیں گے۔
دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اور پاکستانی قوم اس کشمیر کی آزادی کیلئے اپنا کیا کردار پیش کرتی ہے اور کشمیر کی آزادی کیلئے بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے حکم کو پورا کرتے ہوئے کب اہل پاکستان کشمیر میں داخل ہو کر اپنا حق بزور طاقت وصول کرتے ہیں اور ”کشمیر بزور شمشیر” کا عملی مظاہرہ کر کے دکھاتے ہیں۔ اسی بات کا تقاضا ہے کہ ہم کشمیر کی آزادی تک اس ظالم، غاصب، قاتل، دہشت گرد اور سب سے بڑے دشمن سے کوئی تعلق استوار نہ کریں اور اول تا آخر کشمیر کی آزادی کو نصب العین بنا لیں تو ہمارے نظریے اور جغرافیے کی تکمیل کے لئے یہ سب سے بڑا قدم ہو گا۔
تحریر: علی عمران شاہین
(برائے رابطہ0321-4646375)